شاردہ یونیورسٹی کی طرف چڑھائی چڑھتے ہوئے قدم بوجھل محسوس ہوتے تھے۔ پچھلے چار دنوں کے مسلسل پیدل سفر کی تھکاوٹ کا اثر ابھی آرام مانگتا تھا۔ جلکھڈ سے دواریاں تک رتی گلی جھیل کا شوق دن بھر چلنے کے لئے تیار تو کر دیتا تھا لیکن پتھریلے راستوں اور برفانی بلندیوں نے اپنے اثرات پورے جسم پر مسلط کر دیئے تھے۔ سوچا تھا کہ دواریاں کے کسی گیسٹ ہاﺅس کی نسبت شاردہ کے کسی زیادہ آرام دہ ہوٹل میں رات بسر کی جائے تو کچھ افاقہ ہو۔ لیکن سیاحوں کے اژدہام نے یہ خواہش بھی پوری نا ہونے دی تھی۔ شاردہ کے تمام ہوٹل، گیسٹ ہاﺅس اور یہاں تک کے رہائشی خیمے بھی ملک بھر سے آئے لوگوں سے اٹے ہوئے تھے۔بمشکل تمام دو نسبتاً کشادہ اور پرسکون کیمپ میسر آئے تھے جس کی وجہ سے گزشتہ شب ایک بے سدھ نیند میسر آئی تھی۔ اب یا تو یہ نیند کا اثر تھا یا تھکاوٹ کا کہ شاردہ کی اس کچی پکی سڑک پر یہ چڑھائی بھی مشکل ہونے لگی تھی۔ شاردہ کی تاریخی اور سیاحتی شہرت تو بہت عرصے سے سن رکھی تھی لیکن کبھی اس تاریخی یونیورسٹی کے کھنڈرات کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھاجو کبھی اس خطے کا اہم ترین علمی و تدریسی مرکز تھا۔ یہاں تک کہ اس علمی مرکز کا اپنا ایک رسم الخط تھا جس کا نام شاردہ تھا اور اسی کی وجہ سے وادی نیلم کے اس مرکزی اور سب سے اہم مقام کا نام بھی آج تک شاردہ ہے۔ یقینا ایسی منفرد درسگاہ نے گئے زمانوں میں دور دور تک کیسے کیسے علمی، تہذیبی اور تمدنی اثرات نا چھوڑے ہوں گے۔

چلتے چلتے اپنے کم سن گائیڈ وقاص سے پوچھا کہ” بیٹا،کونسی کلاس میں پڑھتے ہو”؟ کل شام کسی باعزت ٹھکانے کی تلاش کے دوران یہ لڑکا خود بخود ہمارا گائیڈ بن گیا تھا اور اسی سبب شا ردہ کے ایک پرسکون گوشے میں دریائے نیلم کے کنارے ہم دو خیمے ڈھونڈ پائے تھے۔ شاید شاردہ آنے والے سیاحوں کو ر ہائش وغیرہ میں مدد کرنے سے وقاص جیسے بچے کچھ کما لیتے ہوں گے۔ “میں نہیں پڑھتا !” دو تین سیکنڈ کے توقف سے جواب آیا۔ “کیوں؟ ” یہ سوال خودبخود منہ سے نکلا تھا۔”بابا بیمار ہے ،پیسے نہیں ہیں اور ہمارا گاﺅں دور ہے۔۔” وہی کہانی جو پہاڑوں میں لائن آف کنٹرول کے اردگرد بسنے والے ہزاروں خاندانوں کی ہے اور جو ہم بھی جانتے ہیں اوراربابِ اختیار بھی۔ دور افتادہ علا قوں کی مفلوک الحالی اور علم و شعور سے دانستہ یا نا دانستہ دور رہنے کی مجبوری۔۔ وقاص کو کچھ سمجھانا بیکار تھا یا نہیں لیکن کچھ رٹے رٹائے جملے کہہ کر اپنا فریضہ پورا کر ہی لیا۔ نجانے اس بچے نے کچھ سمجھا بھی ہو گا یا دل ہی دل میں ہماری سادگی پر ہنسا ہو گا !

ضروری ہدایات سن کر یونیورسٹی کے لگ بھگ دو ہزار سال پرانے اس پتھریلے کھنڈرکی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔ اس بلندی پر سیاہ پتھر کی اس قدر طویل و عریض سلیں لانا اور سیڑھیوں کی شکل میں جمانا ہی پہلی حیرت تھی۔ بائیں ہاتھ پر موجود پتھریلی دیوار کا جھکاﺅ غیر معمولی طور پر خطرناک تھااور گرنے کو تھا۔ فوری طور پر خدشہ محسوس ہوا کہ کسی بھی وقت یہ دیوار گر ی تو شاید یہ سیڑھیاں بھی باقی نا بچیں۔

سیڑھیوں کے اختتام پر ایک وسیع و عریض مربع کچا احاطہ تھا جس میں گھاس اگی ہوئی تھی اور اطراف میں پتھروں سے بنائی گئی چار دیواری تھی ۔ احاطے کے عین درمیان ایک بلند برج نما عمارت کا کھنڈر تھا۔ پہلی نظر میں سمجھ نہیں آتا تھا کہ اصل میں یہ کیا ہے۔بائیں طرف نظر گھومی تو موٹے کاغذ کے چارٹ پر ایک فریم شدہ تحریر پر نظر پڑی جو احاطے کی دیوار سے ٹکا کر زمین پر رکھ دی گئی تھی۔ ‘شاردہ یونیورسٹی کا تاریخی پس منظر’ کے عنوان سے یہ تحریر سیاحوں کی معلومات کے لئے یہاں رکھی گئی تھی۔ ایک مختصر تعارف کے طور پر یہ تحریر کچھ یوں ہے :

“حوالہ تاریخ ہند قبل از تاریخ ، مشہور مسلمان مورخ البیرونی اپنی کتاب ‘کتاب الہند’ میں شاردہ کا کچھ یوںذکر کرتے ہیں۔ سری نگر کے جنوب مغرب میں شاردہ واقع ہے ۔ اہل ہند اس مقام کو انتہائی متبرک تصور کرتے ہیں ۔اور بیساکھی کے موقع پر ہندوستان بھر سے یہاں یاترا کے لئے آتے ہیں۔ لیکن برفانی اور دشوار گزار علاقوں کے باعث میں خود وہاں نہیں جا سکا۔
حوالہ ‘کتاب الہند’ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسط ایشیا کی سب سے بڑی تعلیمی اور تدریسی درس گاہ تھی۔ یہاں بدھ مت مذہب کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ، ہئیت، منطق اور فلسفہ پر مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درس گاہ کا اپنا رسم الخط تھا جو دیونا گری سے ملتا جلتا تھا۔ اس رسم الخط کا نام شاردہ تھا۔ اسی مناسبت سے موجودہ گاﺅں کانام بھی شاردہ بحوالہ ICR Aslamabadہے۔ اس عمارت کو کنشک اول نے 24ءتا 27ءمیں تعمیر کروایا تھا۔ کنشک اول نیپال کی ریاست کا شہزادہ تھا ۔ شاردہ یونیورسٹی کی عمارت شمالاً جنوباً مستطیل چبوترے کی شکل میں بنائی گئی ہے۔ عمارت کی تعمیر آج کے انجنئیرکو بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
یہ عمارت بر صغیر میں پائی جانے والی تمام عمارتوں سے مختلف ہے۔خاص کر اس کے درمیان میں بنایا گیا چبوترا ایک خاص فن تعمیر پیش کرتا ہے جو بڑا دلچسپ ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً سو فٹ ہے۔ اس کی چاروں طرف دیواروں پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ جب کے جنوب کی طرف ایک دروازہ ہے ۔ عمارت کے اوپر چھت کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ تاہم مغرب سے اندر داخل ہونے کے لئے تریسٹھ سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ آج بھی کچھ قبائل تریسٹھ زیورات پر مشتمل تاج ہاتھی کو پہناتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ تریسٹھ کا عدد جنوبی ایشیا کی تاریخ میں مذہبی حیثیت رکھتا ہے۔ بدھ مت کے عقائد سے ملتی جلتی تصاویر اس میں آج بھی نظر آتی ہیں۔ ان اشکال کو پتھر میں کرید کر بنایا گیا ہے۔ اس عمارت میں ایک تالاب بھی ہوتا تھا جو آج موجود نہیں ہے۔ امراضِ جلد سے متاثرہ لوگ اس میں غسل کرتے اور شفا پاتے تھے۔ کیونکہ یہاں آنے والا پانی دو کلومیٹر دور سے سلفر ملے ہوئے تالاب سے لایا گیا تھا۔
تاریخی شواہد کے مطابق شاردہ میں پانچ ہزار افراد موجود تھے۔ شاردہ سے کشن گھاٹی تک کا سارا علاقہ آباد تھا۔ کشن گھاٹی یونیورسٹی کی مرکزی عمارت سے تین کلومیٹر جنوب میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے جسے مقدس تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک لمبی غار تھی جس میں ایک بت بنوایا گیا تھا جس کے نیچے مُردوں کو جلایا جاتا تھا اور اس راکھ کو کشن گنگا )موجودہ دریائے نیلم( میں بہادیا جاتا تھا۔ شاردہ ماضی بعید میں ناگااور راوڑ قبائل کا مسکن رہا ہے جس کے مذہبی عقائد بدھ اور جین مت سے ملتے جلتے تھے۔ شاردہ قلعہ کے پس منظر سے لوگوں کی اکثریت نابلد ہے۔ اس وجہ سے لوگوں میں اس تاریخی اور تدریسی درسگاہ سے متعلق بڑی دلچسپ کہانیاں مشہور ہیں جو یہاں آنے والے لوگوں کو سنائی جاتی ہیں جن میں دیومالاﺅں کا ذکر ملتا ہے۔ تاہم آج یہ عمارت ایک پرانے کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے اور عدم توجہ کا شکار ہے۔ اس کی تعلیمی اور تدریسی اہمیت ایک خواب لگتی ہے۔ ”

احاطے کی پتھروں پر مشتمل چار دیواری یقینا مرمت کی جاتی رہی تھی اس لئے مکمل تھی۔ یہاں بیرونی دیوار پر ایک درخت کے سائے میں بیٹھی رضیہ سیاحوں کو پر اشتیاق نظروں سے دیکھتی تھی۔ کسی نزدیکی گاﺅں کی، معصومیت ، سادگی، اور تجسس سے بھرپور چار پانچ سال کی اس بچی سے بھی وہی کچھ پوچھنے کا دل کرتا تھا جو وقاص سے پوچھا تھا۔ لیکن اسی گھسی پٹی کہانی کو سننے کی افسردگی نے کچھ پوچھنے نہ دیا۔ اپنے وقت کی ایک یگانہ روزگار درس گاہ کے کھنڈر میں کھڑے ہو کر اس کی عظمت رفتہ کا تصور اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اس عظیم یونیورسٹی کی اطراف میں پھیلی تعلیمی پسماندگی کا مشاہدہ ۔ وقت کے ظلم نے ایک علم کدہ کو تو ماضی میں دھکیل ہی دیا تھا۔ لیکن آنے والے وقتوں میں کم از کم ایک نسل پر ہونے والی اس ناانصافی کا خیال خاصا تکلیف دہ تھا۔ اس نا انصافی کا تعلق بھی انہی معاشی اور معاشرتی مسائل سے ہے جو غربت اور پسماندگی کا شکار دیگر کروڑوں لوگوں کو بھی درپیش ہیں۔

شاردہ یونیورسٹی کی ان باقیات میں جہاں چہار اطراف جنگلات سے بھرپور سرسبز ڈھلوانیں تھیں، گہرائی میں پرسکون دریائے نیلم تھا، ترچھی چھتوں والے خوشنما ہوٹل تھے اور جہاں وقاص اور رضیہ جیسے بچے تھے، باربارذہن میں ایک خیال اٹھتاتھا۔ لگ بھگ دو ہزار سال قبل کے لوگوں نے علم و دانش کی پیاس بجھانے کے لئے اس پر فضا مگر دور دراز مقام کا انتخاب کیا لیکن آج کا انسان بہتر وسائل کے باوجودبھی بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے ۔کیا ان علاقوں کا تاریک ماضی ،آج کے روشن دور کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب تھا۔۔؟

Leave a Reply