لیکن در حقیقت یہ وادی اس تصویر سے کہیں زیادہ دلکش اور دلآویزہے۔

گلگت شہر کے خشک اور بھورے پہاڑوں کو دیکھ کر یہ گمان کرنا بھی مشکل ہواکرتا ہے کہ کہیں آس پاس کوئی سرسبز ، پرفضا اور قدرتی مناظر سے لبریز خطہ بھی ہو گا!
اس بے یقینی کو دور کرنے کے لئے صرف ایک گھنٹے کا پختہ سڑک کے ذریعے جیپ کا سفر کرنا پڑتاہے ۔ گلگت بلتستان کا بیشتر علاقہ مون سون کی پٹی سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے اپنا ایک الگ مخصوص موسی مزاج رکھتا ہے۔ لیکن گلگت سے صرف چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی نلتر قدرتی طور پر ایسا موسمیاتی خطہ ہے جہاں بارشوں کی کثرت ہے۔ سطح سمندر سے بلندی اور موسم کی اس تبدیلی کی وجہ سے یہاں دیار کے گھنے جنگلات اور سبزے کی بہتات ہے۔

نلتر کی وادی کے دو حصے ہیں۔ ایک نلتر پائن جسے زیریں نلتر کہا جاسکتا ہے اور دوسرا نلتر بالا۔ نلتر پائن میں مقامی آبادی کے علاوہ پاکستان ائیر فورس کا ایک بیس کیمپ بھی موجود ہے ۔ مختصر سے بازار کے علاوہ یہاں رہائش اور خوراک کے لئے بنیادی سہولیات بھی میسر ہیں۔نلتر پائن پہنچ کر دائیں طرف کے پہاڑی سلسلے پر دیار کے گھنے جنگلات نگاہوں کو بھانے والا دلفریب منظر ہیں۔ گلگت کی خشک گرمی کے بعد یہاں کی راحت افزا ہوااور سکوت بھی اس سرسبز ماحول کو مزیدپر سکون بناتے ہےں۔
نلتر پائین سے آگے پختہ سڑک کا اختتام ہو جاتا ہے اور نلتر بالا تک کچا راستہ ہے ۔بعض مقامات پر معمولی لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ عمومی طور پر یہ ایک محفوظ اور خوبصورت راستہ ہے۔ دریائے نلتر کے کنارے اور درختوں کے جھنڈ میں چھ کلومیٹر کا یہ فاصلہ پیدل یا جیپ دونوں طرح سے طے کیا جا سکتا ہے۔ نلتر بالا تین ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ گھنے جنگل، جھیلوں اور آبشاروں کی موجودگی کے باعث یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے بہت کچھ ہے۔

نلتر کی تینوں جھیلوں کی انفرادیت ان کے مختلف رنگ ہیں۔ پہلی جھیل کا مجموعی تاثر سبز رنگ کا ہے۔ یہ سبز رنگ اس جھیل کی تہہ میں موجود ایک منفرد اور کائی نما پودوں کے باعث ہے۔ اس کے شفاف پانی کی تہہ میں دبیز سبز رنگ کی یہ تہہ دیکھنے میں انتہائی بھلی لگتی ہے۔ اسی جھیل کے سامنے بلند پتھریلی چٹانوں سے گرتی دو آبشاریں منظر کو اور بھی دلفریب بناتی ہیں۔ یہ آبشاریں ان چٹانی بلندیوں پر موجود پگھلتی برف کی وجہ سے ہیں اور قریب جانے پر ان کی ٹھنڈی پھوار اپنا اثر ضرور چھوڑتی ہیں۔جھیل کے کنارے کیمپنگ کے لئے ہموارجگہ اور کھانے کے لئے ایک عارضی ہوٹل بھی موجود ہے۔

دوسری جھیل یہاں سے کوئی پندرہ منٹ کے فاصلے پر کچھ بلندی پر واقع ہے۔ مختصر سی یہ خوبصورت جھیل جو پتھروں کے ایک انبار اور درختوں کے درمیان واقع ہے نیلے رنگ میں ڈھلی ہوئی ہے۔ جھیل کی دوسری طرف واقع درختوں کا ایک جھنڈ اور اس کے اوپر پانچ ہزار نو سو میٹر بلند شانی کی برف پوش چوٹی کا عکس اس نیلے رنگ میں شامل ہو کر نہایت پر اثر منظر پیش کرتا ہے۔ بائیں جانب قریب کی بلندی سے جا کر درختوں میں گھری اس جھیل کا نظارہ اور بھی زیادہ متاثر کن ہے۔
اس نیلی جھیل کے دائیں جانب، پتھروں اور چٹانوں کے ایک انبار کی دوسری جانب نلتر کی تیسری جھیل چھپی ہوئی ہے۔اس جھیل تک پہنچنے کے لئے پتھروں اور چٹانوں پر کسی قدر اچھل کود کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ جھیل پہلے والی دونوں جھیلوں سے بڑی اور ٹیلوں نما اس چٹانی سلسلے کے اندر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا پانی قدرے گدلا اور سفیدی مائل ہے۔

وادی نلتر میں ان جھیلوں کے علاوہ شانی گلیشئیر اور شانی بیس کیمپ بھی ایڈونچر کے شائقین کے لئے ایک دلچسپ سفر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سفر میں برفانی چوٹیوں کا نظارہ، گلیشئیر کی ٹھنڈک اور ڈھلوانی سبزہ زاروں کے مناظر یقینا ناقابل فراموش لمحات ہیں۔ یہاں سے ایک راستہ چار ہزار چھ سومیٹر بلند درہ نلتر کے ذریعے گلگت کی ایک اور مشہور وادی اشکومن کے لئے بھی ممکن ہے۔ درہ نلتر کی بلندی اور دشوار گزار راستے کی ضروریات کے مطابق تیاری کے بغیر یہ ٹریک بہت مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنی دشواریوں کے باوجود دو سے تین دن کا یہ ٹریک برفانی بلندیوں کے سنسنی خیز مناظر سے بھرپور ہے۔

 

Leave a Reply