تاﺅ بٹ کسی شخصیت کا نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے خوبصورت وادی کا نام ہے! وادی نیلم کے انتہائی شمال میں واقع یہ وادی ان علاقوں میں سے ہے جس کی کسی بھی زاویے سے لی گئی تصویر قدرتی حسن کا ایک شاہکار قرارپاتی ہے۔ گھنے جنگلات کی بات ہو یا سرسبز ہموار میدانوں کی، نیلگوں پانیوں کا تذکرہ ہو یا پرتسکین موسم کا خیال، تاﺅ بٹ ہر تصور سے زیادہ حسین مقام ہے۔
مظفرآباد ، شاردہ یا کیل سے جیپ کے ذریعے ہی اس جنت نظیر وادی تک پہنچاجا سکتاہے۔ مظفرآباد سے تاﺅ بٹ تک ایک طویل سفر ہے جو دس سے بارہ گھنٹے تک لے سکتا ہے۔ شاردہ وادی نیلم کا سیاحتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرفضا اور خوبصورت مقام ہے۔مظفرآباد کے علاوہ کاغان سے بھی جیپ کے ذریعے براستہ درہ نوری نار شاردہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دور دراز سے آنے والے سیاحوں کے لئے شاردہ میں قیام کی ہر ممکن سہولت دستیاب ہے۔ یہاں سے وادی نیلم کے تمام علاقوں بشمول تاﺅ بٹ تک بہنچا جا سکتا ہے۔ وادی نیلم میں کھانے کا معیار اور ذائقہ پاکستان کے دیگر سیاحتی مقامات سے کہیں بہتر ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ بھیڑ بھاڑ نا ہونے کے باعث یہاں ہوٹلوں کے کرائے بھی کم ہیں اور کھانے پینے کی اشیاءبھی معمول کے داموں دستیاب ہیں۔ ان بہت سی خصوصیات کے باعث وادی نیلم فرصت کے دن گزارنے اور سیاحت کے لئے بہترین انتخاب ہے۔
شاردہ سے کیل کے راستے تاﺅ بٹ تک چار سے چھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ تمام راستہ دریائے نیلم کے کنارے اور گھنے جنگلات سے بھرپور ہے۔ موسم خوشگوار اور جگہ جگہ پہاڑی ندیاں نالے اور ان گنت آبشاریں ہر لمحہ اپنی طرف متوجہ رکھتی ہیں۔ وادی نیلم کا اصل حسن کیل سے آگے شروع ہوتا ہے۔ یہاں جنگلات ناقابل بیان حد تک گھنے ہیں۔ راستے کے ساتھ متعدد آبشاریں پھوار اڑاتی ہیں اور گہرائی میں دریا خوابناک حد تک شفاف ہے۔ اس راستے پر ممکنہ پڑاﺅ کے مقامات جان وئی، سرداری اور ہلمت ہیں۔
جان وئی چاروںاطراف سے گھنے جنگلات سے لبریز پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ بادلوں کی موجودگی میں یہ گھنے جنگل کی تنگ وادی دھند میں لپٹ جاتی ہے ۔ ایسے میں جان وئی ہمیشہ کے لئے یادوں میں بس جانے والے ایک خوابناک منظر میں ڈھل جاتا ہے۔ جان وئی میں کھانے اور رہائش کے لئے لکڑی سے بنا ایک ہی ہوٹل ہے جہاں رہائش اور خوراک کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ جانوئی کے بعد ہلمت کا حیران کن خوبصورت علاقہ شروع ہوتا ہے۔ بائیں جانب کے سرسبز پہاڑ سے لیکر گہرائی میں دریائے نیلم اور اس کے دونوں طرف شاداب گھاس سے لبریز میدان قدرت کی تخلیق کا ایک ناقابل بیان نمونہ ہیں۔ یہاں دریا بھی ایک روانی سے بہتا ہے اور سکون و راحت کی ایک کیفیت دیکھنے والوں پر بھی طاری ہو جاتی ہے۔
ہلمت کے گاﺅں بھی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ لکڑی سے تعمیر کردہ اور چھتوں تک پر لکڑی کے ترچھے شہتیر، چھتوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں اور ان مکانوں کے ارد گرد کے سرسبز کھیت! نیلے آسمان، درختوں سے گھری پہاڑیوں اور دریائے نیلم کے پس منظر میں یہ منظر شاید ہی کسی اور جگہ دستیاب ہو۔اس منظر کے متعدد گاﺅں اس راستے میں دکھائی دیتے ہیں اور انہیں نظاروں میں تاﺅ بٹ کا آغاز ہوتا ہے۔
تاﺅ بٹ بھی قریب قریب انہیں تمام قدرتی اجزا پر مشتمل ہے جو تمام راستے مختلف مقدار اور تراکیب سے نت نئے مناظر کی شکل میں ڈھلتے رہے ہیں۔ تاﺅ بٹ میں یہ تمام شاہکار اجزا حسین ترین توازن کے ساتھ خالص ترین رنگوں میں ایک وسیع و کشادہ کینوس پر تخلیق کئے گئے ہیں۔ اس شاہکار منظر کا حصہ بن کر اور جیتی جاگتی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرنا کسی بھی بیان اور تصور کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
تاﺅ بٹ پہنچ کردریائے نیلم قدرے دور ہو جاتا ہے۔ اس کی جگہ ایک شفاف ندی اور اس کے پس منظر میں گہرے سبز جنگلات والی بلندیاں ماحول پر چھائی ہوئی ہیں۔ ندی پر بنائے گئے لکڑی کے ایک خوبصورت پل سے دریائے نیلم کے کنارے پہنچنے کے لئے چند منٹ کا فاصلہ ہے جو پیدل طے ہوتا ہے۔ لکڑی کے چند گھروں، آلوو ¾ں کے کھیتوں اور کچے راستے سے ہوتے ہوئے دریائے نیلم تک یہ ایک آسان فاصلہ ہے۔ رنگا رنگ پھولوں اور گھاس کے قالین سے مزین کہیں ہموار اور کہیں اونچے نیچے میدان کی شکل میں دریا کا یہ کنارا کیمپنگ اور آرام کے لئے بہترین جگہ ہے۔ اعصاب کو سکون اور دل و دماغ کو ترتازہ کر دینے والی ہواﺅں، دریا کے پانی کی مترنم آوازوں اورپرندوں کی چہچہاہٹوں کے ساتھ آلودگی سے دور تاﺅ بٹ میں انسانی محسوسات پر چھا جانے والی تمام خصوصیات موجود ہیں۔
تاﺅ بٹ میں روایتی انداز میں لکڑی سے بنا ایک ہوٹل اور ایک دکان موجود ہے جو رہائش اورخوراک کی ضروریات کے لئے مددگار ہوسکتا ہے۔ وادی نیلم اور تاﺅ بٹ تک آنے کے لئے تمام لوگوں کو اپنی شناخت کے لئے قومی شناختی کارڈ لازمی طور پر ساتھ رکھنا چاہئے۔ چونکہ وادی نیلم کے اکثر علاقے لائن آف کنٹرول پر واقع ہیں اس لئے مقبوضہ علاقوں سے کسی ناخوشگوار واقعے یا بلا اشتعال کاروائی کے نتیجے میں یہاں آمد ورفت تعطل کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔ اٹھمقام، کیرن، دواریاں اور بعض دیگر علاقے اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں حفاظتی نقطہ نگاہ سے وادی نیلم کا سفر مناسب نہیں۔