صوبہ گلگت بلتستان کا ضلع استور کئی خصوصیات کی وجہ سے سیاحوں کے لئے باعث کشش ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں آباد یہ علاقہ پاکستان کے دوسرے بلند ترین پہاڑ نانگا پربت کی دوسری طرف واقع ہے۔ استور ایک طرف سے آزاد کشمیر ،دوسری طرف سکردو سے دیوسائی کے ذریعے ملا ہوا ہے اورتیسری طرف گلگت کا طویل و عریض علاقہ ہے۔ استور ایک فراخ وادی کی صورت میں خشک بھورے پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس کی بلندیوں پر جائیں تو گھنے جنگلات، جھیلیں، برف پوش چوٹیاں اور یخ بستہ پانی کی ندیاں ہیں۔ انہی سرسبز اور آنکھوں کو تراوٹ بخشنے والی وادیوں میں سے ایک وادی کا نام منی مرگ ہے۔
منی مرگ لائن آف کنٹرول کے پاس ہونے کی وجہ سے ممنوعہ علاقہ ہے اور صرف باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کر کے ہی یہاں جایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حفاظتی ضروریات کے تحت منی مرگ اور دیگر ممنوعہ علاقوں میں کیمپنگ وغیرہ کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ حتمی معلومات اور اجازت کے لئے گلگت میں ایف سی این اے کے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
چلم سے ایک راستہ دیوسائی اور سکردو کی طرف جبکہ دوسرا راستہ منی مرگ کی طرف جاتا ہے۔ چلم چوکی پر شناختی کاروائی وغیرہ کے بعد منی مرگ کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ برزل اپنی بلندی کی وجہ سے سال کے بیشتر مہینے برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ برف پگھلنے کے بعد درے کے دونوں طرف اور دور دور تک کی ڈھلوانوں کی شادابی اور سبزہ اپنے بھرپورجوبن پر آجاتا ہے۔ درہ پار کرنے کے بعد مسلسل اترائی ہے اور پختہ سڑک ہونے کی وجہ سے جیپ کا سفر خاصی رفتار سے طے ہوتا ہے۔
منی مرگ گاﺅں اور آس پاس کی تمام آبادیوں کے مکان مکمل لکڑی سے تعمیر کئے جانے کی وجہ سے منفرد نظر آتے ہیں۔ ان مکانوں کی اطراف میں کھیت اور گاﺅں کے اردگرد بلند پہاڑیاں ہیں۔ یہ پہاڑیاں کہیں خشک، کہیں سرسبز اور کہیں درختوں سے پر ہیں۔ دور دور تک ہموار کھیت اور بائیں جانب کی سبزہ زار ڈھلوانیں منی مرگ کی خوبصورتی کا بنیادی سبب ہیں۔ ان ڈھلوانوں کے نیچے تیز رفتار ندی ہے جس میں نیلگوں پانی رواں دواں ہے۔ منی مرگ میں کھانے پینے کے لئے روایتی انداز کا ایک ہوٹل موجود ہے جہاں لکڑی کا ایک تخت مہمانوں کے آرام اور کھانے کے لئے بچھایا گیا ہے۔ ہوٹل کے دائیں اور بائیںگاﺅں کی ضروریات کے پیش نظر اکا دکا دکانیں بھی موجود ہیں۔
منی مرگ سے آس پاس کے دیگر خوبصورت علاقوں مثلاً دومیل، چھوٹا دیوسائی اور گلتری وغیرہ تک بھی جایا جا سکتا ہے۔ ان علاقوں میں خاص طور پر قابل ذکر دومیل ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دومیل کی وجہ سے ہی منی مرگ کی شہرت ہے۔ دومیل منی مرگ سے گیارہ کلومیٹر دور ہے ۔ اس علاقے کی اصل خوبصورتی دومیل کے جنگلات، گاﺅں کے مکانات، سبزہ زار اور رین بو جھیل ہیں۔
رین بو جھیل کو دومیل کا سب سے اہم اور حسین ترین مقام کہا جا سکتا ہے۔ یہ جھیل مصنوعی طور پر بنائی گئی ہے ۔مقام کے انتخاب اور اعلیٰ انتظامات کی بدولت اس جھیل نے حقیقتا دومیل کو چار چاند لگا دئےے ہیں۔ شفاف سبزی مائل پانی ، جھیل میں گرتادلفریب جھرنا اور پانی میں تیرتی خوبصورت چوبی نشست گاہ اس جھیل کو حیران کن حد تک حسین بناتی ہے۔ رنگارنگ پھولوں اور سبز گھاس سے مزین کناروں اور پہاڑی ڈھلوانوں پردرختوں کی قطاریں!خوبصورتی کے ہر پیمانے پر پوری اترنے والی یہ جھیل قدرتی اور انسانی کمالات کا حسین ترین امتزاج ہے۔
منی مرگ سے دومیل تک اور اردگرد کا تمام علاقہ چونکہ سرسبز اور شاداب ہے اس لئے جگہ جگہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ان سبزہ گاہوں میں چرتے نظر آتے ہیں۔ قدرتی مناظر کے درمیان چرتے اور اٹھکیلیاں کرتے یہ جانور منظر کو اور بھی دلچسپ بناتے ہیں۔
دومیل کا بیشتر علاقہ ایک گھنے جنگل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انتہائی دلفریب ہے۔ ان جنگلات کے بیچ لکڑی کے مکانوں پر مشتمل گاﺅں پاکستان کے کسی بھی علاقے کے دیہات سے قطعی مختلف نظر آتے ہیں۔ قریب قریب بنے ان اونچے نیچے گھروںکی ترچھی چھتیں دور سے کسی تصوراتی دنیا کی تصویر نظر آتی ہیں۔ ہرے بھرے میدان میں اور خوبصورت پہاڑیوں کے درمیان ایک ایسا گاﺅں جہاں صرف امن اور سادگی ہے۔ آلودگی اور آلائشوں سے دور ایک قابل رشک زندگی کے لئے دومیل کے یہ گاﺅں بہترین خواہش ہو سکتے ہیں۔
ممنوعہ علاقہ ہونے اور لائن آف کنٹرول کی قربت کے باعث یہاں سیاحوں کی آمدو رفت نا ہونے کے برابر ہے۔ حفاظتی انتظامات اور جغرافیائی حساسیت کے باوجود اگر اس علاقے کو سیاحت کے لئے پیش کیا جا سکے تو پاکستان کے خوبصورت سیاحتی ورثے میں یہ سب سے اہم اضافہ ہو گا۔ پاکستانی نوجوانوں میں مثبت سرگرمیوں کے فروغ اور سیاحت کی صنعت کی ترقی کے لئے ایسا کوئی بھی قدم یقینا قابل ستائش قرار پائے گا۔