بلتستان، گلگت، چترال، چلاس، سوات، کاغان، ہنزہ اور نگر پاکستان کی سیاحت کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انتہائی بلند و بالا اور جنت نظیر ان علاقوں میں آنے والے سیاح بہتر سے بہترین اور بلند سے بلند ترین کی خواہش میں کئی کئی ماہ ایسے مقامات پر بسر کرتے ہیں جہاں آبادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ برفوں، پتھروں، چٹانوں اور سرد پانیوں سے لبریز ان علاقوں میں واقع دنیا کے انوکھے عجائبات کو دیکھنے اور انہیں فتح کرنے کی تمنا بے شمار غیرملکیوں کو ہر سال گرمیوں کے موسم میں پاکستان کھینچ لاتی ہے۔
گلگت، سکردو، ہنزہ اور چترال وغیرہ کے بازاروں میں پہنچ کر ان سیاحوں اور کوہ پیماﺅں کی پہلی ضرورت ایسے افراد ہوتے ہیں جو ان کے ارادوں کی تکمیل میں ان کے ہمسفر اور معاون ہو سکیں۔ پاکستان کے ان علاقوں کے لوگ اپنی جفاکشی کے باعث وزنی سامان کے ساتھ نہایت دشوار اور بلندیوں پر جانے والے راستوں پر چند ہزار روپے کے عوض اپنے روزو شب ان مہمانوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ دنیا کے بڑے سے بڑے کوہ پیما ہوں یا ٹریکنگ کا شوق رکھنے والے بلندپہاڑوں کے شائقین، ان ناخواندہ اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مفلوک الحال محنت کشوں کے بغیر ایک دن بھی نہیں گزار سکتے۔ دنیا کی نامور ترین پہاڑی مہمات کی کامیابی کے پیچھے ان پورٹروں اور گائیڈوں کا جتنا اہم کردار ہوا کرتا ہے اس کے مقابلے میں یہ پہاڑی میزبان اتنی ہی گمنامی کا شکار ہیں ۔
پہاڑوں کی جنت سکردو سے سات سے دس گھنٹے کی جیپ کے ذریعے مسافت پر اسکولے نام کا ایک گاﺅں واقع ہے۔ وادی شگر کے نام سے نہایت مشہور بلتستان کی اس طویل و عریض وادی کے انتہائی سرے پر واقع یہ گاﺅں پاکستان میں غیرملکی سیاحوں کا سب سے بڑا مرکز کہا جاسکتا ہے۔ اس گاﺅں کی اس خصوصیت کی وجہ نہ صرف اس کی اپنی خوبصورتی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اس کی شہرت کا سبب دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑی مرکز کنکورڈیا اور کے ٹو پہاڑ ہیں۔ اسکولے سے کے ٹو، براڈپیک، گشابروم ، ٹرانگو ٹاورز اور بالترو، بیافو اور گونڈوگورو گلیشیئر کے اطراف میں واقع دیگر پہاڑی چوٹیوں تک کی مہماتی ٹیمیں اپنا آغاز کرتی ہیں۔ پندرہ بیس دن کے عام سیاحتی ٹوورسے لے کر کئی ماہ تک کی مہمات کے لئے اسکولے اور گردونوح کے جوان، بوڑھے اور بچے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ یہی ان کے روزگار کا ذریعہ اور مشکلات کا سہارا ہے۔ غربت، پسماندگی اور ناخواندگی کے باعث یہ لوگ یا تو گرمیوں کے موسم کا انتظار کرتے ہیں یا مویشیوں اور زراعت کے ذریعے اپنے گھرانوں کا پیٹ پالنے کی سوچ میں غرق رہتے ہیں۔ حکومت پاکستان ان گائیڈوں اور پورٹروں کے لئے ہر سال ایک مناسب معاوضہ کا تعین کرتی ہے۔ سیاحوں سے حاصل ہونے والے اس معاوضے پر یہ پورٹر کئی کئی دن گھروں سے دور رہ کر ہر طرح کے موسمی اتار چڑھاﺅ ، حادثات اور بیماریوںکا سامنا کرتے ہیں۔ اپنی غربت اور ناخواندگی کے باعث یہ محنت کش اپنی خوراک، لباس اور حفاظت پر خرچ کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ رقم اپنے گھرانوں کی پرورش اور سردیوں کے موسم میں گھروں کی مرمت اور خوراک وغیرہ کے انتظام کے لئے جمع کرنے کی تگ و دو میںلگے رہتے ہیں۔جدید آسائشوں سے ناواقف یہ لوگ بنیادی گزراوقات کی جستجو میں سردھڑکی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ان کی زندگیوں میں جھانکیں توسوچ کا ایک نیا رخ سامنے آتا ہے۔
اسکولے کے گاﺅں سے تعلق رکھنے والے محمد نامی ایک پورٹر نے بتایا کہ اس کے تین بچے ہیں ۔ زراعت سے بمشکل گھر کا آٹا حاصل ہوتا ہے اور اس دور افتادہ مقام پر رہنے کے لئے جہاں روزمرہ ضروریات کی چیزیں انتہائی مشکل اور مہنگے داموں ملتی ہیں اسے گرمیوں میں بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ناخواندگی اور کسی ہنر سے ناآشنائی کے باعث محمد کسی اور کام کے ذریعے اتنی آمدنی حاصل نہیں کر سکتا جو اسے اسکولے سے کسی ملکی یا غیرملکی مہم کا سامان اٹھا کر چلنے سے مل سکتی ہے۔ محمد کا کہنا تھا کہ سردیوں اور بارشوں میں اس کے مکان کی چھت ٹپکتی ہے جسے وہ پتوں، ٹہنیوں اور مٹی سے مرمت کر کے کام چلاتا ہے۔ بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم اس گاﺅں میں سردیوں کے شدید موسم میں جب تمام راستے بند ہو جاتے ہیں اور کھانے پینے تک کی اشیاءکی بندش ہو جاتی ہے تو اسے انہی گرمیوں میں اس وقت کا بندوبست کرنا ہو گا۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اس نے بتایا کہ بعض ملکی اور غیرملکی غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے چلنے والے ایک سکول میں اس نے اپنے بچوں کو داخل کروایا ہے اور کوشش کرے گا کہ اپنی استطاعت کے مطابق انہیں تعلیم دلواتا رہے۔
وادی شگر کے ایک اور دور افتادہ گاﺅں چوگو سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان پورٹر عسکری نے بتایا کہ وہ سکردو میں نویں جماعت کا طالب علم ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی تعلیم اور گھر کے اخراجات کے لئے وہ کام کی تلاش میں نکلا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کسی ایسی مہم میں اسے بوجھ اٹھانے کا کام مل جائے جو دس پندرہ دنوں میں مکمل ہو سکتی ہو۔ اپنی تعلیم اور چھٹیوں کے باعث وہ اس سے زیادہ دن کام نہیں کرسکتا۔ عسکری نے بتایا کہ اس کی کوشش ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے گائیڈ یا پورٹروں کا سردار بن جائے۔ اپنے گاﺅں میں تعلیم نہ حاصل کرنے کے سوال ہر عسکری کا کہنا تھا کہ یہاں تعلیم کا معیار اچھا نہیں ہے اور ہائی اسکول تو یہاں ہے ہی نہیں۔ اس لئے اگر وہ اچھی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے سکردو میں ہی پڑھنا پڑے گا جہاں پانچ سو روپے مہینہ فیس کے علاوہ رہنے کے اخراجات تین چار ہزار روپے ماہانہ کے لگ بھگ ہیں۔ عسکری کا کہنا تھا کہ اسے انگریزی سیکھنے کا شوق ہے کیونکہ انگریزوں کے ساتھ کام کرنے کے لئے انگریزی کا آنا لازمی ہے۔
بلتستان کے ایک اور دسٹرکٹ گنگچھے کے گاﺅں ہوشے کے ایک گائیڈ اور کک(باورچی) سخاوت نے کہا کہ اگر میں پڑھا لکھا ہوتا تو اپنی کمپنی بنا کر بڑے گروپوں کو گائیڈ کرتا۔ میں آج کک کا کام کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے کھانا پکانا آتا ہے۔ ہمارے گاﺅں ہوشے میں تعلیمی سہولیات کی ہمیشہ کمی رہی جس کی وجہ سے میں اور گاﺅں کے بے شمار لوگ ان پڑھ ہیں۔ سخاوت نے بتایا کہ کنکورڈیا اور کے ٹو وغیرہ کے لئے گائیڈ کا کم سے کم میٹرک پاس ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دوسرے علاقوں میں یہ شرط نہیں ہے اس لئے موقع ملنے پر وہ دوسرے آس پاس کے علاقوں کے لئے گائیڈ کا کام بھی کرتا ہے ۔ اسکولے سے کے ٹو کے لئے زیادہ رش کی وجہ سے بہت سے لوگ یہاں مزدوری کے لئے آتے ہیں میں بھی ایک جرمنی کے گروپ کے ساتھ ککنگ کر رہا ہوں۔
شیرعلی نامی ایک مقامی جو گھوڑے کے ذریعے سامان اور سیاحوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا ہے نے بتایا کہ گھوڑے کی وجہ سے اسے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ گھوڑا انسان کی نسبت کہیں زیادہ سامان اٹھا کر کم وقت میں بلند علاقوں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہت سے زخمی اور زیادہ عمر کے سیاح گھوڑے کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں جس سے اچھی آمدنی ہو جاتی ہے۔ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے شیر علی نے کہا کہ راستہ انتہائی خطرناک ہے جس کی وجہ سے کئی گھوڑے دریا میں یا کسی بلندی سے گر کے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گلیشیئر پر شدید سردی کے باعث بھی گھوڑوں کی جان کو خطرہ رہتا ہے۔ شیر علی نے بتایا کہ ایک گھوڑا دو تین دفعہ بلندی تک جا اور آ کر بہت عرصے تک کام کے قابل نہیں رہتا کیوںکہ بلندیوں پر گھوڑے کی خوراک میں کمی اور شدید مشقت کی وجہ سے کمزوری ہو جاتی ہے جو بہت عرصہ آرام اور خوراک کے بعد دور ہوتی ہے۔
بلند پہاڑوں کے یہ پورٹر اور مزدور بلاشبہ سیاحت کے شعبے میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔ بہت سے پورٹر ایسے بھی ہیں جو کوہ پیماﺅں کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند چوٹیوں تک ان کی ضروریات کا سامان پہنچاتے ہیں۔ ایسے پورٹروں کو ہائی آلٹی چیوڈ پورٹر کہا جاتا ہے۔ ان کا معاوضہ عام پورٹروں سے کہیں زیادہ لیکن خطرات بھی انتہائی زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے پورٹروں کی تعداد بھی کم نہیں جو کسی مہم کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انتہائی مشکل حالات میں یہ پورٹر پتھروں کی آڑ میں سرد گلیشئیروں اور زمین پر ایک ترپال یا مومی چادر کے نیچے راتیں گزارتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بچت کے لئے خوراک، لباس اور حفاظت کی مد میں دیئے جانے والے پیسوں کو ان ضروریات پر خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے بیماریوں اور حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ں کی اشد ضرورت ہے۔ اردو سمیت کسی بھی دوسری زبان سے ناآشنائی ان محنت کشوں کی مشکلات سے آگاہی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ابتدائی تربیت اور مناسب ماحول میں سیاحوں کے ساتھ دوستانہ رویوں کی اہمیت سے آگاہی ان پورٹروں اور سیاحوں دونوں کے بہت سے مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے۔
ان راستوں پر جہاں پانی اور سردی سے محفوظ انتہائی مہنگے جوتوں کے اندر بھی موسم کے اثرات محسوس ہو تے ہیں یہ پورٹر پھٹا سویٹر یا میلی جیکٹ پہنے اپنے آپ میں مگن سامنے سے آتے سیاحوں سے لاتعلق اور اپنے بھائی پورٹروں سے دعاسلام کرتے اپنے گروپ لیڈر سے اچھی ٹپ کے خیال میں مگن بغیر رکے منزل پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ مہم کی کامیابی یا ناکامی سے بے نیاز اسکولے واپسی پر بسکٹ اور چائے کا شاندار کھانا انہیں نئے سرے سے وزن اٹھا کر چلنے کے لئے تیار کرتا ہے اورپھر کیمپنگ سائٹ کے دروازے پر کسی دیوار یا پتھر سے ٹیک لگائے کسی نئے گروپ کی راہ تکنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔