کیا کوئی جھیل بھی اندھی ہو سکتی ہے؟ جب انسان اپنے علم و فہم کو کسی پیش آنے والی حیرت کے مقابلے میں کم تر پاتا ہے تو ایسے معاملے کو قریب ترین قابل فہم نام دیتا ہے۔ سطح مرتفع دیو سائی میں واقع اس جھیل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ خوددیو سائی کا نام بھی ایسا ہے کہ جس سے دیو مالائی و طلسماتی تاثر فوراً ہی ذہن میں ابھرتا ہے اور ایسے مقام پر ایک اندھی جھیل!
دیو سائی دو الفاظ کا مجموعہ ہےدیو’ اور ‘سائی’یعنی’ دیو کاسایہ’۔ ایک ایسی جگہ جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتارہا کہ یہاں دیوﺅں کا سایہ ہے۔ اس کہ علاوہ سال کے آٹھ ماہ برف سے اٹا یہ علاقہ دنیا کے خوفناک اور منفرد ترین جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لئے ناقابل عبور رہا۔برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں ، طوفانوں اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لئے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔
کشمیر سے ملحقہ اور کوہ ہمالیہ میں واقع دیوسائی دنیا کا سب سے بلند اور اپنی نوعیت کا واحد سطح مرتفع ہے جو اپنے کسی بھی مقام پر 4000میٹر سے کم بلند نہیں۔ گرمیوں کے چار مہینوں میں ہزار ہا رنگ کے پھولوں سے سجا ہونے کو باوجود تقریباً3000مربع کلو میٹر وسیع و عریض اونچے نیچے ڈھلوانی و ہموارسرسبزمیدانوں کی اس سرزمین میں ایک بھی درخت نہیں!شفاف پانیوں کے پانچ بڑے دریاﺅں ،ان گنت ندیوںاوررواں چشموں کا جال لئے کچھ فاصلے پر 5000میٹر تک بلند پہاڑیوں پر سفیدبرف جو کہ گرمیوں میں کم ہو کر سبز اور سفید رنگوں کا نہایت خوش نما منظر پیش کرتی ہے اور دیکھنے والوں کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہے۔
اسی وجہ سے اسے شوسر یعنی اندھی جھیل کہا جاتا ہے۔ شوسر جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ہے گہرے نیلے پانی ،اپنے پس منظر میں برف پوش پہاڑیوں اور پیش منظر میںسرسبزگھاس اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ یہ منفرد جھیل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔شوسر جھیل کے گرد چکر لگانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں جس سے اس کے طول و عرض کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
دیو سائی اور شوسر جھیل سیاحوں کی پہنچ میں دو اطراف سے ہے: ایک سکردوکی طرف سے شمالی سمت سے اور دوسرا استور سے مغربی سمت سے۔سیاح اپنی ہمت اور شوق کے مطابق کئی طریقوں سے دیوسائی کی سیر کرتے ہیں۔ عام طور پر جیپ سفاری، گھوڑوں کے ذریعے یا پھر جسمانی طور پر مضبوط سیاح پیدل بھی دیوسائی تک پہنچتے اور پھر دوسری طرف سکردو یا استور تک جاتے ہیں۔علاوہ ازیں دیوسائی بائیسکل سفاری بھی ان دنوں دنیا بھر کی ٹورسٹ کمپنیوں کے لئے سیاحوں کو متوجہ کرنے کا متاثرکن حربہ بن چکا ہے۔دیوسائی کا سفر چاہے جس سمت سے بھی ہو اور کسی بھی طریقے سے کیا جائے، قدرت کی لامحدود خوبصورتیاںتمام سفر آپ کے ہم رقاب ہوتی ہیں۔
دیوسائی کے لئے بھی شمالی علاقہ جات کے دیگر تمام بلند پہاڑی مقامات کی طرح مکمل تیاری اور منصوبہ بندی سفرکی پہلی شرط ہے۔اپنے اچانک شدید طوفانوں، سرد موسم ،مچھروں کی یلغار، خوراک و دیگر ساماں حتیٰ کہ انسانی آبادی کے آثار سے بھی تہی اس علاقے کی سیاحت آپ سے گھر سے نکلنے سے پہلے مکمل معلومات اور زادِراہ کا مناسب انتظام مانگتی ہے۔
سکردو کی طرف سے سفر مشہور جھیل صد پارہ سے ہوتا ہوا غیر ہموار کچے راستے اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ایک طرف نہایت اونچے پہاڑوں اور راستے کے دوسرے سرے پر گہری کھائیوں کی موجودگی ۔ تنگ موڑوں کے اس راستے پر نہایت ماہر اور تجربہ کار ڈرائیور کے علاوہ جیپ چلانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
علی ملک کے مقام پر جو کہ دیوسائی میں داخل ہونے کا نشان ہے اور ایک بلند پہاڑی درہ ہے سے گزر کر آپ دیو سائی کی سرزمین میں قدم رکھتے ہیں۔ یہاں سے وہ کرشماتی حسن جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف بلاتا ہے آپ کو بھی اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ شتوں کے پانی سے جو کہ گھٹنوں سے لیکر کمر تک اونچے پانی کا ایک چوڑا دریا ہے، آپ کو پانی میں سے ہی گزرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ جیپ میں ہیں تو کوئی مشکل نہیں لیکن پیدل سفر کرنے والوں کے لئے یہ ایک امتحان ہوتا ہے۔ نہایت سرد تیز رفتار پانی میں سے سامان اٹھا کر گزرنے کے بعد اکثرسیاح کافی دیر تک اپنے حواس ہی بحال کرتے رہتے ہیں۔
اگلا مقام بڑا پانی ہے جہاں اکثر سیاح اپنے خیموں میں رات گزارتے ہیں۔ یہاں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے خیمے بھی سارا سیزن لگے رہتے ہیں جہاں اہلکار جنگلی حیات کی افزائش و حفاظت کے علاوہ سیاحوں کی رہنمائی اور سہولیات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
یہاں سے اگلا پڑاﺅ شوسر جھیل کا ہوتا ہے۔دیوسائی کے سینے سے گزرتے ہر طرف سیٹیاں بجاتے سنہرے خرگوش نما مارموٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے جنگلی یاک اور دیگر حیوانات کا مشاہدہ کرتے جب آپ شوسر جھیل کو پہلی نظر دیکھتے ہیں تو پھر یہ جھیل آپ کی توجہ کسی اور جانب مبذول ہونے ہی نہیں دیتی۔ دیوسائی میں اڑتے بادلوں اور بدلتی روشنیوں میں یہ جھیل بھی آپ کو رنگ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔اکثر اوقات رنگ برنگے خیمے دور سے سیاحوں کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں اور دیوسائی کے سبزہ زاروں میں موجود مختلف قومیتوں ،زبانوں اور رنگوں کے یہ لوگ اس جھیل کی خوبصورتی اور انفرادیت پر مکمل متفق نظر آتے ہیں۔
ہمالیائی بھورے ریچھ! دنیا بھر میں اپنی انفرادی حیثیت کی وجہ سے مشہور وہ ہمہ خور جانور ہے جو دیوسائی کے میدانوں میں صرف 25سے 30کی تعداد میں باقی ہے۔یہ ریچھ نہایت بیدردی سے شکار کئے جانے کی رجہ سے دنیا سے ناپید ہوتے جارہے ہیں اور اس خطے میں تو دیوسائی کے علاوہ کسی بھی جگہ پر ان کا وجود باقی نہیں۔انتہائی خونخوار یہ ریچھ اپنی اس سرزمین پر انسان کا وجود پسندنہیںکرتے ۔ کہا جاتا ہے کہ دیوسائی میں دریاﺅںپربنائے جانے والے لکڑی کی پلوں کو ان ریچھوں نے اپنے دانتوں اور پنجوں سے کاٹ کر گرا بھی ڈالا۔ اب بھی بعض پلوں پر لکڑی کے شہتیروں پر ان پنجوں اور دانتوں کی نشانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ایسے واقعات کے سبب چند سال قبل پاکستان اور دنیا بھر کے تحفظ جنگلی حیات کے اداروں نے ان ریچھوں کوپرورش اور حفاظت کے لئے ایک مخصوص علاقے تک محدودکر دیا ہے۔ اب صرف خصوصی طور پرمحکمہ تحفظ جنگلی حیات کے گائیڈز کے ساتھ ریچھوں کو ان کے مخصوص علاقوں میں جا کر دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ گائیڈز ہر لحاظ سے تربیت یافتہ ہیں اور اس بات کا بھرپور خیال رکھتے ہیں کہ سیاحوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ریچھوں کے معمولات میں بھی مخل نہ ہوں۔بھورے ہمالیائی ریچھوں کے علاوہ دیوسائی برفانی چیتوں، آئی بیکس، سنہرے مارموٹ، سرخ لومڑی،لداخی اڑیال،ہمالیائی ہرن،بھیڑیوں،مچھلیوںاور دلفریب رنگوں کے انواع واقسام کے پرندوں کا مرکز ہے۔