”وہ اطمینان سے سورہاتھا،ہم نہایت احتیاط اور خاموشی سے اس کے قریب ہوئے۔کوئی بیس میٹر کے فاصلے پر رک کر ہم اس کا مشاہدہ کرنے لگے۔ کچھ دیر تک تو وہ سویا رہا لیکن پھر کسی آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ جوں ہی اس نے ہمیں دیکھا وہ حیران رہ گیا۔ اس کے تاثرات ایک ایسے بچے کی طرح تھے جس نے پہلی دفعہ کسی کو دیکھا ہو۔ چندمنٹ وہ ہمیں حیرانگی اور بے یقینی کی کیفیت میں دیکھتا رہا اور پھر آہستگی سے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔ “
رین ہولڈ میسنر کے 1997میں کہے یہ الفاظ کیا کسی تخیلاتی دنیا کی داستان ہیں یا حقیقت میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آسکتا ہے؟ یہ سوال بہت سے لوگوں کے مابین بحث و مباحثے اور دلچسپی کا باعث بن چکا ہے۔
لیکن دنیا کے دیگر علاقوں میں ماہرین حیاتیات سے لے کر عام آدمی تک کوئی بھی کسی ایسی مخلوق کو ایک تخیلاتی کردار سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ اور اس سے پہلے دنیا بھر میں شہرت رکھنے والے کسی شخص نے ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والے عظیم کوہ پیما رین ہولڈ میسنر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک نہیں کم سے کم چار مرتبہ اس مخلوق کا مشاہدہ کر چکے ہیں جسے عام طور پریٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ بقول میسنر ایک دفعہ وہ یٹی کے اس قدر قریب جا چکے ہیں کہ وہ اسے چھو بھی سکتے تھے۔
”یہ خاصی شرمیلی مخلوق ہے ۔ اس کا قد دو میٹر کے قریب ہے اور آپس میں رابطے کے لئے یہ سیٹیوں نما آوازیں نکالتی ہے۔رات کے اندھیروں میں اس کا نشانہ یاک اور بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں جن کا شکار کرکے یہ گزارا کرتی ہے۔ “
میسنر اپنے دعوے میں کس حد تک صحیح ہیں اس کا اندازہ ممکن ہے چند برس میں سب کو ہو جائے۔
حقیقت جو بھی ہو فی الحال یہ یقینا ایک اچھوتا دعویٰ ہے۔ لیکن میسنر کے بارے میں بھی یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود بھی ایک غیر معمولی انسان ہیں۔ ان کے کوہ پیمائی کے ریکارڈ دیکھیں تو دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ دنیا کے واحد انسان ہیں جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چودہ چوٹیوں کو سر کرنے کا کارنامہ انجام دے رکھا ہے۔ وہ بغیر اضافی آکسیجن کے ماﺅنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اکیلے ماﺅنٹ ایورسٹ سر کی جو آسان کام ہر گز نہیں۔ وہ ہمالیہ کے ایسے علاقوں میں بھی جا چکے ہیں جہاں شاید بہت ہی کم لوگ پہنچ سکیں۔
”ایسی جگہوں پر جہاں کوئی درخت نہیں اگ سکتا میںدو ہفتے پورا پورا دن یٹی کی تلاش میں پھرا۔ پھر میں غیرمعمولی یعنی تقریباً پیتیس سینٹی میٹر چوڑے قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتا رہا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ ہم اتنی جلدی اسے پا لیں گے۔ پہلے میں نے ایک مادہ یٹی کو اپنے بچے کے ساتھ دیکھا۔ بچے کے بال سرخ رنگ کے تھے جبکہ اس کی ماں کے بال کالے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے ہمیں دیکھا وہ نہایت تیزرفتاری سے بھاگ کر کہیں چھپ گئے۔ “
یہ بھی میسنر ہی کا کہنا ہے ۔ اس کے دو دن بعد میسنر اور ان کے ساتھی ایک سوئے ہوئے یٹی تک پہنچے۔
ڈاکٹر کارل شنکر جو انگلینڈ میں ایک زووالوجسٹ ہیں اور یٹی سے متعلق معلومات اور معاملات میں ایک ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میسنر کی ان باتوں میں وزن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
”ہمالیہ کے دوہزار کلومیٹر رقبے میں جو زیادہ تر پاکستان، تبت اور بھارت کے علاقوں پر مشتمل ہے، یٹی کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ ان شواہد کی بنیاد پر ان کی تین قسمیں سمجھ آتی ہیں۔ ایک سرخ یٹی ، دوسرا طویل القامت کالا برفانی انسان اور تیسرا سرخی مائل چھوٹے یٹی۔“
اگر میسنر کی باتوں کو کارل شنکر کے بیان سے ملایا جائے تو یہ سمجھ آتا ہے کہ سرخ یٹی اصل میں چھوٹی عمر کے بچے کو کہا جا سکتا ہے اوربڑی عمر کے یٹی کالے بالوں والا طویل القامت یٹی ہو سکتا ہے۔ جبکہ ممکن ہے درمیانی عمر کا یٹی کچھ سرخ اور کچھ کالا ہوتا ہو۔
لیکن یٹی کی موجودگی کے بارے میں سب سے اہم اعتراض جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی مخلوق خود اکیلی زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر اس کا کوئی وجود ہے تو یہ چند سو کی تعداد میں نا صحیح پچاس کے لگ بھگ تو کہیں اکٹھی ہوں۔ اور اگر کسی بھی مقام پر ان کی اتنی تعداد موجود ہے تو اب تک اس کا یقینی سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا؟
اس اعتراض کے جواب میں میسنر کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق خطرے سے دور رہنا چاہتی ہے اوراسی لئے یہ صرف ایسے علاقوں کو اپنا مسکن بناتی ہے جہاں انسان کی پہنچ نا ہو سکے۔ ان کا اندازہ ہے کہ صرف ہمالیہ کے علاقوں میں ہی ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہمالیہ کے یہ علاقے برف اور جنگلات سے بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں ایسی کسی بھی مخلوق کا زندہ ہونا عین ممکن ہے۔ یہ رات کو شکار پر نکل کر اپنا گزارا کر سکتی ہے۔ مقامی لوگوں کی طرف سے ایسی کئی شکایات سننے میں آتی رہتی ہیں کہ ان کے جانور گم ہو گئے ہیں۔ اور گم ہونے سے مراد جانوروں کا چوری ہونا نہیں بلکہ کسی گوشت خور جانور مثلاً چیتے وغیرہ کے بھینٹ چڑھنا ہوا کرتا ہے۔
پاکستان کے شمالی اور پہاڑی علاقوں کے لوگ بھی ایسی مخلوق کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔ چند بڑے بوڑھے اپنی آنکھوں سے اس مخلوق کو دیکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بعض غیرملکی سیاحوں نے سنو لیک (بیافو اور ہسپر گلیشئیرواقع ضلع نگر ) کے آس پاس بڑے بڑے قدموں کے نشانات کی گواہی دی ہے۔ ضلع دیامر میں نانگا پربت سے ملحقہ نہایت گھنے جنگلات پر مشتمل علاقے فیری میڈوز میں بھی لوگ ’باربنڈو‘ نام کی کسی ایسی ہی مخلوق کی داستانیں سناتے ہیں۔ ایک مرتبہ کیلاش کی وادیوں میں اسی قسم کی ایک مخلوق دیکھی گئی جس کے متعلق بعض خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوئیں۔
کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحدوں پر واقع برما کے علاقے میں بھی ایسا ہی سنا گیا۔ بغور معائنے کے بعد اس مرتبہ ماہرین کچھ بال وغیرہ بھی اکھٹے کرنے میں کامیاب ہوئے اور پھر مختلف سائنسی بنیادوں پر ان بالوں وغیرہ کے ٹیسٹ نے یہ ثابت کیا کہ کم ازکم یہ کسی ایسے جانور یا مخلوق کے ضرور ہیں جس سے اب تک سائنس واقف نہیں تھی۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اگر یہ مخلوق موجود نہیں تو مختلف مقامات کے بہت سے لوگ ایک جیسی داستانوں پر کیوں یقین رکھتے ہیں اور اگر موجود ہے توہر طرح کی ٹیکنالوجی اور انسانی کوششوں کے باوجود اب تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے کیوں نہیں آسکا؟ اب رین ہولڈ میسنر تو عمر کے تقاضوں کی وجہ سے زیادہ بلند علاقوں تک جانے کے قابل نہیں ہیں اورپہاڑوں سے متعلق ایک جدید طرز کے میوزیم کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں اب کون اور کب یٹی یا باربنڈو اور ایسے ہی کئی ناموں والے کسی برفانی انسان کے راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔یا کوئی ماہر ہمیشہ سے سنی سنائی جانے والی ان داستانوں کے مرکزی خیال کی تردید کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
جب تک کسی بھی ایک یقینی اور قابل قبول نتیجے پر نہیں پہنچا جاتا، 2500میٹر سے بلند علاقوں کے بہت سے مکین اور سیاح شاید اس مخلوق کے واہمے سے نکل نا سکیں