یوں تو خیبر پختون خواہ کے تمام ہی پہاڑی علاقے کسی نا کسی انوکھی خاصیت کے حامل ہیں۔ کہیں جھیلوں میں گردو پیش کا عکس مسحور کرتا ہے تو کہیں دریاﺅں کی پر سکون ٹھنڈک گرم دنوں میں اپنی تاثیر یاد کرواتی ہے۔ کہیں سبزہ و شادابی خوابناک یادوں کا سبب بنتی ہے اور کبھی برف پوش بلندیاں اپنی طرف بلاتی ہیں۔ انسان تجسس کرے تو قدرتی حسن و جمال کا ایک سے ایک بڑھ کر کرشمہ ان پہاڑی سلسلوں کے نشیب و فراز میں موجود ہے۔ انہی فطری مناظر سے بھرپور، عام نگاہوں سے اوجھل، ہجوم اور شور سے دور ایک وادی کمراٹ بھی ہے۔
چاروں طرف واقع سر سبز پہاڑوں کے بیچ، سبزی مائل دریا کے کنارے ایک پرسکون قصبہ جہاں کے لوگوں میں اب بھی وہ سادگی اور اخلاص ہے جو دورِ موجودہ میں ایک خیال کی صورت میں ہی باقی رہ گیا ہے۔
تھل سے دریا کے ساتھ ساتھ کچھ پختہ اور بیشترکچا راستہ ایک ایسی وادی کی طرف راہنمائی کرتا ہے جہاں صرف اور صرف سکون ہے۔دیار کے گھنے درختوں میں سے ہوتے ہوئے، دونوں اطراف کے گھنے جنگل سے گھرے پہاڑوں کے سائے میں یہ سفر ایک منفرد تاثیر رکھتا ہے۔ سفر کی طوالت اور ناہموار راستے کے سبب اس پوشیدہ حسن تک پہنچنے کے لئے جیپ ہی بہتر انتخاب ہے۔ تھل کی آبادی سے نکلتے ہی دریا کے کنارے کئی مقامات ایک راحت افزا پڑاﺅ بن سکتے ہیں۔ دریائے پنجگوڑہ میں ٹراﺅٹ مچھلی کی بہتات ہے لیکن اس برفیلے اور تند رفتار پانی میں مچھلی کا شکار نہایت مشکل ہے۔ بغیر مقامی تجربہ کاروں کی مدد کے یہ کام بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
کمراٹ کا موسم نہایت معتدل ہے۔ یہاں نا میدانی علاقوں کی گرمی ہے اور نا ہی برفیلی ٹھنڈک۔ درختوں کی گھنی چھاﺅں میں آس پاس کے سر سبز و شاداب نظارے اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک قدرتی چشمہ اور جگہ جگہ رواں شفاف پانی کے باعث اس علاقے کو پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں بآسانی شامل کیا جا سکتا ہے۔ چاہے مختصر تفریحی دورہ ہو یا کیمپنگ کا ذوق رکھنے والوں کا تفصیلی سفر، کمراٹ ہر طرح کے لوگوں کے لئے ایک جنت سے کم نہیں۔ کمراٹ کے ارد گرد موجود بڑی آبشاریں بھی اس کی انفرادیت کو چار چاند لگاتی ہیں۔ ان آبشاروں تک پہنچنے کے لئے دریا پار کر کے کچھ بلندی تک چلنا پڑتا ہے۔ لیکن کمراٹ جا کر ان آبشاروں کا قریب سے مشاہدہ نا کرنا بدذوقی ہی کہی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے دیگر پہاڑ ی مقامات مثلاً سوات، کاغان، مری اور گلیات کی نسبت کمراٹ کا سفر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگ اس نام تک سے واقف نہیں۔ اس کی ایک وجہ دیر کے نہایت دور دراز علاقے میں واقع ہونا بھی ہے۔ اس کے علاوہ سفری سہولیات کا میسر نا ہونااور رہائش کی عدم دستیابی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ علاقہ وہ شہرت بھی حاصل نا کر سکا جو اس سے کہیں کم خوبصورت علاقوں کو حاصل ہے۔
تھل اور کمراٹ کے آس پاس کے تمام علاقوں کے لوگ مہمان نواز اور پرخلوص ہیں۔ مذہبی رجحان اور مقامی روایات کے حامل اہل تھل مہمان نوازی کو بنیادی اخلاقیات میں سرفہرست سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مہمانوں کی راہنمائی کے لئے اپنے کاروبار اور کام کاج تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس طرح کی کسی بھی خدمت کے عوض معاوضے کی پیشکش کو بھی قبول نہیں کرتے۔
کمراٹ کے لئے ایک راستہ ضلع سوات سے بھی ممکن ہے۔ کالام اور اتروڑ سے ہوتا ہوا یہ راستہ ایک دشوار، نہایت بلند لیکن انتہائی گھنے جنگلات میں سے گزرتا ہے۔ اس راستے سے کمراٹ کا سفر اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد سفر ہے۔ اس سفر کے لئے چھوٹی جیپ اور چاک و چوبند ڈرائیور کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تنگ موڑوں اور مکمل کچے راستے پر مشتمل اس سفر میں شاید ہی کسی جگہ سورج کی کرنیں زمین تک پہنچتی ہوں۔ ایک بلند درہ، سوات اور دیر کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔ اس درے سے دور دور تک کے پہاڑوں اور سر سبز ڈھلوانوں کا منظر بھی دیکھنے کے لائق ہے۔
کمراٹ کے جنگلات جنگلی حیات سے بھی بھرپور ہیں۔یہاں مارخور، ہرن اور چیتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔بندر تو عام طور پر آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر تجربہ کار مقامی شکاری میسر ہو تو ٹراﺅٹ مچھلی بھی بآسانی شکار کی جا سکتی ہے۔کسی بھی قسم کی آبادی نا ہونے کی وجہ سے کمراٹ میں ضروری اشیاءساتھ لانا ضروری ہے۔ تھل کے بازار سے خوراک وغیرہ دستیاب ہے جو ضرورت کے مطابق ساتھ لائی جا سکتی ہے۔
بہت زبردست مضمون ہے
اپکا بہت بہت شکریہ اتنے اچھی معلومات دینے کا
الله پاک آپکو خوش رکھے