پاکستان کی بعض جھیلیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی مختلف اور منفرد ہیں۔ نہایت بلندی پر برفیلے پہاڑوں کے قدموں میں واقع ہونے کی وجہ سے سال کے چند ہی دن ان جھیلوں میں پانی نظر آتا ہے۔ باقی تمام سال یہ ایک ٹھوس برف کی شکل اختیار کئے رہتی ہیں۔
چٹہ کٹھہ کا مطلب سفید ندی ہے۔ یہ جھیل وادی شونٹرکی چند حیرتوں میں سے ایک اور کئی طلسماتی کہانیوں کی بنیاد ہے۔ وادی شونٹر وادی نیلم سے ملحقہ وادی ہے جو کیل سے شروع ہو کر درہ شونٹر کے ذریعے گلگت بلتستان کے ضلع استور تک جاتی ہے۔ وادی نیلم دریائے نیلم کے دونوں طرف واقع ہے اور مظفر آباد سے اس کا آغاز ہو جاتا ہے۔کیل تک پہنچنے کے لئے مظفرآباد سے گاڑیاں مل سکتی ہیں۔ چٹہ کٹھہ جھیل کے لئے آخری مقام جہاں تک صرف جیپ جا سکتی ہے وہ دومیل بالا ہے۔ کیل سے دومیل بالا کا فاصلہ بیس کلومیٹر کا ہے۔ ایک دشوار گزار سفر کے بعد دومیل گاﺅں چٹہ کٹھہ جھیل کے بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دومیل بالا دوردراز کے بیشتر پہاڑی علاقوں کی طرح پسماندگی کا شکار ہے۔ یہاں بھی کسی قسم کی سیاحتی سہولیات کا فقدان ہے اور بمشکل ایک چائے خانہ اور اکا دکا دکانوں کے سوا یہاں کسی بھی چیز کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہاں تک کہ کیمپنگ کے لئے ہموار جگہ ڈھونڈنا تک آسان نہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ کم ازکم ایک رات دومیل میں رہنا ضروری بھی ہے۔ اس کی وجہ وہ آٹھ سے بارہ گھنٹے ہیں جو دومیل سے چٹہ کھٹہ جھیل اور واپسی کے دوران لگ سکتے ہیں۔ اس مکمل دن کی ٹریکنگ کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم ایک رات دومیل میں قیام کیا جائے اور صبح جتنی جلد ممکن ہو ٹریکنگ کا آغاز کیا جائے۔ جلد واپسی پر یہ ممکن ہے کہ کیل یا شونٹر پاس سے ہوتے ہوئے استور تک پہنچا جا سکے۔
چٹہ کٹھہ کے لئے ٹریک دریا کے ساتھ ابتدا میں گہرائی کی طرف اور بعد میں مسلسل بلندی کی طرف ہے۔کسی مقامی گائیڈ کاساتھ ہونا اس ٹریک کے لئے مناسب ہے۔ بعض مقامات پر راستہ ناقابل شناخت ہے اور کسی بھی انسان کی موجودگی اور رہنمائی اس علاقے میں نا ہونے کے برابر ہے۔ ایسی صورتحال میں بہت سے وقت اور توانائی ضائع ہو جاتی ہے۔
دریا کو انتہائی مخدوش اور عارضی لکڑیوں کے ایک پل پر سے پار کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جہاں آلوﺅں کے کھیت اور چند مکانات ہیں۔ کھیتوں سے آگے نکل کر ایک تنگ پگڈنڈی ہے جو متواتر بلندی اور پے در پے موڑوں پر مشتمل ہے۔ اس پگڈنڈی کا اختتام خاصی بلندی پر جا کر ہوتا ہے جہاں درختوں کا سایہ، ٹھنڈی ہوا اور دور دور تک کے حسین نظارے اب تک کی تھکاوٹ کو کافی حد تک کم کر دیتے ہیں۔
یہاں سے آگے ایک آسان اترائی ہے جو چند منٹ میں ایک تنگ وادی میں پہنچا دیتی ہے۔ گرمیوں کے وسط تک یہاں اچھی خاصی برف بھی موجود ہوتی ہے جس پر احتیاط سے چلنا لازم ہے۔ اس وادی کے انتہائی دائیں جانب ایک تنگ موڑ سے ایک مرتبہ پھر بلندی کا آغاز ہوتا ہے جو مسلسل ہے اور جھیل تک چلتا ہے۔یہاں سے آگے سرسبز ڈھلوانیں، ان ڈھلوانوں پر کھلتے رنگ برنگے پھول اور تین اطراف میں بلندیوں سے گرتی آبشاریں ماحول کو مسحور کن بناتی ہیں۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں ایک نصف دائرے کی وادی میں کئی چھوٹی بڑی آبشاریںاوپر سے پگھلتی برف کے سبب سبز ڈھلوانوں پر گرتی ہیں۔ یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن کسی بھی مختصر جگہ پر شاید اس سے زیادہ آبشاریں کسی اور جگہ نا پائی جاتی ہوں۔ اس حوالے سے یہ علاقہ ان خوبصورت ترین مقامات میں سے ہے جس کا متبادل کوئی نہیں ہے۔
یہاں سے جھیل تک کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن بلندی اور چڑھائی کی وجہ سے مسلسل چلناآسان نہیں۔اس آخری چڑھائی کے بعد ایک ہمواراور قدرے آسان میدان ہے جہاں بڑے بڑے چٹان نما ہموار پتھر ہیں۔ ان پتھروں پر چل کر چند ہی لمحوں میں جھیل آ جاتی ہے۔
یہ جھیل گہرائی میں ہے اور اس کے کناروں تک پہنچنا خطرناک اور مشکل ہے۔جھیل کی دوسری طرف ہری پربت نامی برف پوش پہاڑ اور اطراف کی دیگر برفیلی چوٹیاں ایک دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں۔ ہری پربت کے بارے میں بھی کئی کہانیاں مشہور ہیں اور ہندو مت میں اس پہاڑ کی خاصی اہمیت بتائی جاتی ہے۔
چٹہ کٹھہ جھیل اکتالیس سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس بلندی پر یخ بستہ تیز ہوائیں اور موسمی شدت کیمپنگ اور شب بسری کے لئے مناسب نہیں۔ اچانک آنے والے طوفان اور بارشیں ایک الگ مسئلہ ہیں جو کسی بھی وقت دیکھتے ہی دیکھتے امڈ آتے ہیں۔ ایڈونچر کے شائقین نسبتا کم بلند اور محفوظ مقام پر کیمپنگ کر سکتے ہیں جس کے لئے ہر طرح کے ضروری سامان کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اپنی نادر خصوصیات کی وجہ سے چٹہ کٹھہ جھیل ایک انتہائی منفرد تجربہ ہے۔وہ لوگ جو ٹریکنگ کا شوق رکھتے ہیں اور کیمپنگ کے سامان اور تجربے کے حامل ہیں، ان کے لئے یہ جھیل ایک بہترین انتخاب ہے۔لیکن بغیر ضروری لوازمات اور تجربے کے اس سفر پر نکلنا سفر کی طوالت، دشواری ، بلندی اور موسمی شدت کی وجہ سے مناسب نہیں۔