تاریخ میں ‘ہندوکش’کا نام مشہور سیاح ابنِ بطوطہ (1334ئ)کے حوالے سے ملتا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس نام کی وجہ یہ لکھی کہ بہت بڑی تعداد میں قیدی ہندوستانی لڑکے اور لڑکیاںجو افغانستان اور دیگر علاقوں میں لے جائے جاتے تھے اس پہاڑی علاقے میں انتہائی برف اور شدید ترین ٹھنڈ کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے تھے۔
افغانستان کے دارلحکومت کابل کے شمال مغربی پہاڑی علاقے سے شروع ہونے والا یہ پہاڑی سلسلہ بدخشاں، نورستان (افغانستان) اور پاکستان میں چترال اور گلگت میں غذر، اشکومن اوریاسین کے علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔ سلسلہ ہندوکش کی اوسط بلندی 4500میٹر ہے جبکہ لمبائی میں یہ تقریباً966کلومیٹر ہے۔دریاﺅں میں کابل، ہلمند، ہری رود اور کنار کے قابل ذکر ہیں۔ترچ میر، نوشاق، استرونال اورسرغرار کی چوٹیاں اس سلسلہ میں شامل بلند ترین چوٹیوں میں سے ہیں۔ یہ سب چوٹیاں سلسلہ ہندوکش کے پاکستانی حصہ میں واقع ہیں۔
چترال ہندوکش کے سب سے بلندی والے خطے میں واقع ہے۔ یہ ہندوکش سلسلہ کے بلند ترین حصوں تک پہنچنے کا نقطہ آغاز اور رنگا رنگ قدرتی و پہاڑی مناظر پر مشتمل 14833مربع کلومیٹر وسیع و عریض علاقہ ہے۔ خواڑی یا چترالی یہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی مقامی زبان ہے ۔
چترال کا سفر کئی وجوہات کی بنا پر دلچسپ، دلفریب اور مفید مشاہدات اور معلومات کا حامل ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کی طرف سے مالا کنڈاور دیر کے خوبصورت علاقوںسے ہوتے ہوئے آسمان کو چھوتے لواری ٹاپ کے ذریعے چترال میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔لواری ٹاپ پاکستان میں واقع بلند ترین پہاڑی دروں میں سے ہے اور 3200میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔بہت سے سیاح لواری ٹاپ کی شہرت کی وجہ سے بھی خصوصی طور پر بذریعہ سڑک چترال کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ لواری ٹاپ سے دونوں اطراف یعنی دیر اور چترال کے علاقوں کا نظارہ قابل دید ہے ۔اپنی بلندی کی وجہ سے لواری ٹاپ نومبر کے وسط سے لیکر اخیر اپریل تک برف سے ڈھکا رہتا ہے اور زمینی سفر ممکن نہیں رہتا۔حکومت نے ان سفری مشکلات کے باعث لواری سرنگ تعمیر کی ہے جو ہر طرح کے موسم میں سفر کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ سیاحت کے فروغ کی سمت بھی ایک اچھی پیشرفت ہے۔
گلگت بلتستان سے چترال کا راستہ گلگت ، غذار اور شندور سے ہوتا ہوا چترال تک پہنچاتا ہے۔یہ ایک طویل سفر ہے اور اپنی مخصوص پہاڑی خصوصیات ، بلندی اور انواع کے قدرتی مناظر کی وجہ سے سیاحوں میں خاصاپسند کیا جاتا ہے۔ زمینی سفر کے علاوہ چترال کا ہوائی اڈہ بھی باقی ملک سے رابطے اور آمدورفت کا اہم ذریعہ ہے۔
ہندوکش پہاڑی سلسلہ کی سب سے بلند چوٹی ترچ میر (7708میٹر) کے قدموں میں آباد چترال سیاحوں کے لئے کئی انداز سے تفریح وسیاحت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ مہم جو ئی کے شائقین یہاں کی بلند وبالا برف پوش چوٹیوں کو سر کرنے، بیس کیمپ تک ٹریکنگ کی خواہش میں یا وسیع و عریض گلیشئیرز کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ عام سیاح یہاں کے پر فضا ماحول، قدرتی حسن، بودوباش اور قدیم رسوم رواج کا مشاہدہ کرکے اپنے سفر کو یادگار بناتے ہیں۔دریائے چترال جسے دریائے کناربھی کہا جاتا ہے ہندوکش کی بلند و بالا چوٹیوں کی برف اور بڑے بڑے گلیشئیرز کا پانی لئے اوراپنے اردگرد سبزے کو سیراب کرتا چترال کی خوبصورتی کا ایک اہم جزوہے۔دریائے چترال اپنی ڈھلوان کی طرف بہتا بالآخر دریائے کابل میں شامل ہو جاتا ہے اور پاکستان کے پانی کے ذخائر کا اہم سبب ہے۔
وادی کیلاش ! چترال کی شہرت کا سب سے بڑا سبب اور سیاحوں کے لئے بے پناہ کشش کا حامل ہے۔ وادی کیلاش میں آباد 3000کے قریب کیلاشی اپنے یگانہ رہن سہن، رسوم و رواج اور طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔رمبور، بمبوریت اور بریر کی وادیوں پر مشتمل علاقہ کیلاش کے یہ مکین بااختلاف روایت سکندر اعظم کی فوجیوں کی اولاد کہلائے جاتے ہیں اور اپنے مذہب اورروایات کی بدولت تمام دنیا میں منفرد ہیں۔اپنے مخصوص دیوتاﺅں پر یقین رکھنے والے یہ کیلاشی اپنی پیدائش، موت، زراعت، موسموں اور غم وخوشی کے موقعوں پر مخصوص دیوتاﺅں کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسموں کے آغاز و اختتام پر یہ مختلف قسم کے جشن کا انعقاد کرتے اور موسیقی و رقص کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔کیلاش کے یہ میلے یا جشن دنیا بھر میں مشہور ہیں اور ان دنوں میں سیاحوں کے ہجوم کی وجہ سے کیلاش میں رہائش کے لئے جگہ تک ملنی مشکل ہو جایا کرتی ہے۔
کیلاش کی وجہ شہرت صرف یہاں کے مخصوص کیلاشی ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ اپنی خوبصورتی اور دلکشی کے باعث بھی سیاحوں کو یہاں ٹھہرنے پر مجبور کرتا ہے۔شفاف پانی کی ندیاںاور چشمے ، پھولوں اور ذائقہ دار پھلوں سے بھرے درخت اور پودے ، حسین قدرتی نظارے حقیقتاًدلفریب اور یادگار لمحات کو جنم دیتے ہیں۔ یہاں کے میوہ جات اور پھل اپنی لذت اور ذائقے میں لاجواب ہیںاور مختلف مقامی مشروبات اور مصنوعات میں عام طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔
چند سال قبل کیلاش کے حوالے سے ایک خبر کئی دن تک پاکستان کے اخبارات میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ خبر کیلاش کے جنگلات میں ایک انسان نما لمبے بالوں اور اپنی ہئیت اور جثہ کے اعتبار سے منفرد مخلوق کی موجودگی کے انکشاف سے متعلق تھی۔ کئی مقامی لوگوں نے اس مخلوق کی موجودگی کی شہادت دی ۔ ہمالیائی برفانی انسان جسے عرف عام میں ‘یٹی ‘کا نام دیا جاتا ہے کا ذکر پہاڑی کہانیوں اور داستانوں میں عرصہ دراز سے کیا جاتا رہاہے۔تبت اور نیپال کے علاقوں کے علاوہ بھی بہت سے بلند علاقوں میں کئی اداروں اور لوگوں نے اس کی تحقیقات کے لئے کوششیں بھی کیں جو کہ اب تک جاری ہیں لیکن قدموں کے نشانات ، غیر یقینی علامات اور عینی شہادتوں کے علاوہ مکمل تصدیق نہ کی جا سکی۔اس علاقے میں بھی اس مخلوق کی موجودگی چند دن تک ظاہر ہوتی رہی لیکن بعد ازیں یہ دشوار ، بلند اور بے آباد پہاڑوں اور جنگلات میں غائب ہو گئی۔