ہوشے ،سات ہزار آٹھ سو اکیس میٹر بلند، دنیا کی چوبیسویں اور پاکستان کی نویں بلند ترین چوٹی مشہ بروم (کے ون) کے سائے میں واقع وہ گاﺅں جہاں دنیابھر کے کوہ نورد اور ایڈوینچر کے متلاشی ایک ناقابل بیاں کیفیت کا شکار ہو جایا کرتے ہیں۔دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں قراقرم، ہمالیہ اورہندوکش کی بلندیاںآج تک پہلے انسانی قدم کا انتظار کر رہی ہیں۔ انہی پہاڑی سلسلوں میں سے سب سے خطرناک سلسلہ قراقرم ہے جو کوہ نوردوں کی رگ و پے میں سنسنی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سلسلہ قراقرم تبت اور لداخ کے علاقوں سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوکرچین میں ختم ہوتا ہے۔ قراقرم میں دنیا کے سب سے بڑے گلیشئیراور خطرناک ترین دریا بھی واقع ہیں ان گلیشئیرز میں سیاچن، بالتورو، بیافو، ہسپر، چوگولنگما، پسو، بتورہ اور دیگر بیشمار چھوٹے بڑے گلیشئیرشامل ہیں۔ دریاﺅں میں سندھ، شیوک، برالڈو، ہنزہ اور گلگت کے پانیوں کا زیادہ تر حصہ قراقرم کی برف پوش چوٹیوں کا ہی مرہون منت ہے۔اسی سلسلہ قراقرم میںتبت و لداخ کی جانب بلتستان کے ڈسٹرکٹ گنگچھے کا نہایت پسماندہ گاﺅں ہوشے ہے۔ اپنے مشکل تر محل وقوع کی وجہ سے ہوشے سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ہوشے تک پہنچنے کے لئے آخری قصبہ جہاں تک پختہ سڑک موجود ہے خپلو ہے جو سکردو سے 102کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ہوشے تک پہنچنے کے لئے زبردست جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔خپلو سے ہوشے تک کا فاصلہ 38کلومیٹر کا ہے جو کہ نا ہموار پہاڑی سفر ہے اور جیپ کے ذریعے سے طے کیا جاتا ہے۔بلندی، انتہائی دشوارگزارجیپ روڈ اور شدید موسمی اثرات کا مقابلہ قراقرم کے اس پوشیدہ گوشے کی خصوصیات میں سے ہیں۔ تین ہزار چھہ سو میٹر کی بلندی پر واقع اس گاﺅں میں جولائی جیسے گرم مہینے میں بھی دھوپ کی غیر موجودگی میں گرم کپڑوں کے بغیر گزاہ نہیں ہوتا۔ ہوشے پاکستان کے ان خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے جنہیں دیکھنے کے بعد دنیا کے کسی بھی ملک کے باشندے بار بار آنے کی خواہش کرتے ہیں۔
ان ٹریکس میں مشہ بروم بیس کیمپ، کے سکس بیس کیمپ اور کے سیون بیس کیمپ ٹریک، نغمہ ویلی اور گونڈوگورو پاس سے کنکورڈیا یعنی کے ٹوبیس کیمپ ٹریک شامل ہیں۔ یہ وہ خوابناک نام ہیں جو دنیا بھر میںپہاڑوں کے شائقین کے لئے متبرک سمجھے جاتے ہیںاور یہاں سے واپس جانے والوں کی آخری شام افسردگی اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیات میں ڈھل جایا کرتی ہے۔
دنیا کے نامور کوہ نورد اس علاقے میں واقع بلند چوٹیوں کو سر کرنے یا ایڈوینچر کے شوقین سیاح ان حسین قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے لئے کئی کئی دن ان وادیوں، برفوں، دریاﺅں اور پہاڑوں میںپیدل سفر کرتے ہیں۔ان سیاحوں اور کوہ نوردوں کی اکثریت دنیا کے مختلف ممالک سے دور دراز کا سفر کر کے اپنے شوق کی تسکین، تحقیقات، مصوری اور تفریح کے لئے اس علاقے کا انتخاب کرتی ہے۔ سیاحت کے موسم میں جو کہ عموماً مئی سے شروع ہو کر ستمبر میں ختم ہوتا ہے ان پہاڑوں کے سبزہ زاروں اور وادیوں میں رنگ برنگے خیموں کا میلہ سا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ دنیا بھر سے سیاح صرف ان پہاڑوں کو دیکھنے کے لئے ان علاقوں میں جمع ہوتے ہیں اور ہمیشہ تازہ رہنے والی یادیں لے کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ برف پگھلنے کے بعد اس علاقہ میں رنگ برنگے چھوٹے بڑے پھول ، گھاس اور قابلِ کاشت علاقوں میں فصلیں قدرت کے حسن کا دلفریب امتزاج پیش کرتی ہیں۔
ہوشے کا شمار پاکستان کے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ انتہائی دور ہونے، بنیادی سہولیات کی غیر دستیابی، تعلیم و ہنرسے بے بہرہ باشندے اور زمینی و موسمی غیر موزوں زرعی حالات کے باوجود یہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز، شائستہ اور ملنسار ہیں اور اپنی ان خصوصیات کے باعث شمالی علاقہ جات کے حیران کن مہمان نواز” کہلائے جاتے ہیں۔ اپنے کم ترین ذرائع آمدن کے باوجود ان لوگوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرمیوں کے موسم میںآنے والے سیاحوں کا سامان اٹھانے والے مقامی پورٹر اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ ہوشے کے زیرِ تعمیر سکول کو دےتے ہیں جہاں گاﺅں کے تین سو سے زائد بچے تعلیم حاصل کر کے اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں۔یہاں پر موجود چند خواندہ اور ذی شعور لوگوں نے مل کر ایک سماجی ادارے کی بنیاد بھی رکھی ہے جس کا کام تعلیم ، علاج ، سیاحوں کی سہولیات اور دیگر تعمیری سرگرمیوں کا اجراءو ترقی ہے۔مقامی لوگوں کی کوششوں کے علاوہ یہاں بعض ملکی و غیر ملکی تنظیمیں اور ادارے بھی لوگوں کی فلاح و بہبود میں تعاون کر رہے ہیں لیکن یہ تمام کوششیں علاقے کو لوگوں کی ضروریات کے لئے ناکافی ہیں۔
ہوشے میں سال میں صرف دو فصلیں پیدا ہوتی ہیں جو کہ پتھریلی زمین، تیز ہواﺅں اور موسمی تغیرات، آلاتِ زراعت کی کمیابی اور کم تر افرادی قوت کی وجہ سے مقامی ضروریات کے لئے بھی ناکافی ہےں۔انتہائی بلند پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں تک رسائی کا واحد راستہ بھی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اکثر بند رہتا ہے جبکہ کئی دفعہ شدید لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بے شمار گھر تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ بلندی کی وجہ سے یہاں پھلوں یعنی خوبانی ، اخروٹ اور چیری وغیرہ کی پیداوار بھی نہیں ہے۔ پالتو جانور یہاں کے لوگوں کے لئے اہم ترین ذریعہ آمدن ہیں۔ ان جانوروں میں بھیڑ بکریاں ، گائیں، یاک اور زوہ شامل ہیں۔ جنگلی جانوروں میں مارخور، برفانی چیتا، مارموٹ اور مختلف رنگوں کے خوبصورت پرندے اس علاقے کی شہرت کا خاص سبب ہیں۔
سیاحت گزشتہ کئی عشروں سے یہاں کی اہم ترین صنعت رہی ہے یہاں کے زیادہ تر مرد سیاحوں کی رہنمائی اور سامان کی مزدوری کے ذریعے اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں اور اپنی جفا کشی اور خوش خلقی کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں میں شہرت رکھتے ہیں۔لیکن گزشتہ چند برسوں میں آنے والی تبدیلیوں، سیاحت کے عدم فروغ اور پاکستان کے دیگر حصوں میں سیاحت سے غیر رغبتی کی وجہ سے ان علاقوں کے رہنے والوں کے ذرائع آمدن میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔