نگر، قراقرم کے سینے میں آباد پاکستان کا وہ علاقہ جسے قدرت نے عجائبات و مناظرکا ایک اچھوتا امتزاج عطا کیا ہے۔ بلندوبالا برف پوش چوٹیاں، شفاف پانی کی ندیاں، اپنی نوعیت کے منفرد ترین گلیشیئر، گھنے جنگلات،سبزہ زاراور آبشاریں : یہ تمام اجزا جو کسی بھی خوابناک خوبصورتی کی عکاسی کر سکتے ہیں نگر کو عطا ہوئے ہیں۔انہی علامات حسن میں اپنی خوبصورتی میں بے مثال پہاڑی چوٹی جسے دنیا کی خوبصورت ترین چوٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے راکاپوشی ہے۔

گودنیا میں اس سے بلند چوٹیوں کی تعداد چھبیس ہے لیکن اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ گُلمَت (شاہراہ قراقرم ،نگر)کے مقام سے اسے دیکھا جائے تو یہ دنیا کی سب سے بلندمسلسل ڈھلوان ہے۔ اس مقام پر آپ کی سطح سے لیکر راکاپوشی کی چوٹی تک ایک متواتر چڑھائی ہے جسکی اونچائی پانچ ہزار آٹھ سو اڑتیس میٹرہے! جبکہ گُلمَت ہی سے اسکی چوٹی تک کا فاصلہ گیارہ کلومیٹر ہے یہ وہ خصوصیت ہے جو دنیا کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں۔راکاپوشی پہاڑ کی چوڑائی بھی غیر معمولی ہے اور مشرقی سمت سے لیکر مغربی سمت تک اس کاعرض 20کلومیٹر تک ہے۔

راکاپوشی تک جانے کے لئے گلگت پہلی منزل ہے ۔گلگت کا رقبہ 38021مربع کلومیٹر ہے اور دنیا کے مشہور مقامات مثلاً شندور، یاسین، غذر، اشکومن، نلتر،استور، ہنزہ اور نگر وغیرہ کے مشہور علاقے گلگت میں ہی واقع ہیں۔گلگت کے شمال مغرب میں واخان ہے جو کہ افغانستان کی ایک باریک پٹی ہے۔ واخان کی دوسری طرف تاجکستان واقع ہے شمال اور شمال مشرقی اطراف میں چین کا صوبہ سنکیانگ ، شمال مشرق میں مقبوضہ کشمیر اورشمال میں آزادکشمیرواقع ہیں۔گلگت میں زیادہ بولی جانے والی زبان شنیا ہے جبکہ بروشسکی زبان ہنزہ اورنگر اور واخی اور خواڑی زبانیں بھی گلگت کے اکثر علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہےں۔

گلگت سے مختلف گاڑیاں نگر اور ہنزہ کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں اور علی آباد تک پہنچاتی ہیں۔ علی آباد ہنزہ اور نگر دونوں علاقوں کے لئے آسان اور عین شاہراہ قراقرم پر واقع مقام ہے۔ راکاپوشی تک پہنچنے کا راستہ علی آباد سے پہلے ہی ایک گاﺅںپسن سے ہے۔ اگرچہ راکاپوشی جو کہ پہاڑی چوٹیوں کا ایک سلسلہ بھی ہے، کئی راستوں سے سیاحوں کی پہنچ میں ہے لیکن سب سے مشہور اور خوبصورت راستہ پسن اورمناپن گاﺅں سے ہی گزرتا ہے۔ سیاحت کا موسم دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح یہاں بھی مئی سے شروع ہو کر ستمبر کے آخر میں ختم ہو تا ہے۔ جون سے پہلے زیادہ بلند راستوںسے برف مکمل طور پر نہیں پگھلی ہوتی اور بعض جگہوںپرسفر میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ مناپن گاﺅں سے لیکر راکاپوشی بیس کیمپ اور واپسی تک پیدل سفر ہے اور تین یا چار دن میں بآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ مناپن گاﺅں سے آگے مناسب خوراک اور ہوا بند سفری خیمہ کا بندوبست ضروری ہے۔ خوراک اور دیگر ضروری سامان گلگت ، ہنزہ اور نگر کے بازاروں میں عام طور پر دستیاب ہے جبکہ پسن اور مناپن وغیرہ سے آٹا دال چاول اور بنیادی خوارک کا بندوبست کیا جا سکتا ہے ۔ مناسب ترین طریقہ مکمل تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ تمام ضروری سامان اپنے ساتھ لانا ہی ہے جو دوران سفر آپ کو غیر ضروری وزن ، وقت اور اخراجات میں معاون ہو گا۔

اس سفر میں تیزرفتار و پرشور دریائے مناپن آپکے ساتھ ساتھ اپنے ماخذ مناپن گلیشئیر تک چلتا ہے۔ دریائے مناپن میں برف کے چھوٹے بڑے ٹکڑے بھی گلیشئر سے پانی کے ساتھ بہہ آتے ہیں اور گاﺅں کے بچے تواضع کے طور پر سیاحوں کو پیش کرتے ہیں۔دو سے تین گھنٹے کی مسافت کے بعد راستے میںپتھروں سے بنے چند چھوٹے چھوٹے مکانات نظرآتے ہیں جہاں مناپن گاﺅں سے گرمیوں کا موسم گزارنے والے چند خاندان آباد ہیں۔ یہ لوگ گاﺅں کے پالتو جانوروں کی افزائش، خوراک اور ان سے حاصل کردہ دودھ سے مکھن، پنیر، گھی اور لسی وغیرہ تیار کرتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں ٹھنڈی ندیوں کے ساتھ زمین میں گڑھے بنا کر محفوظ کی جاتی ہیں۔

اسی راستے پر دو مقامات پر بڑی بڑی اور نہایت دلفریب آبشاریں آپ کو اپنے پاس بہت دیر تک رکنے پر مجبور کرتی ہیں اور طبیعت میں آسودگی و لطافت کا باعث بنتی ہیں۔چند منٹ بعد ایک تنگ اور مشکل راستے سے گزر تے ہوئے آپ اچانک ایک تا حد نگاہ وسیع و عریض جنت نظیر سبزہ زار میں داخل ہو جاتے ہیں اور سکون کااحساس ماحول کی پرکیف فضا میں ڈھل کر آپ کے تمام وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ وسیع و عریض ڈھلوانی سبزہ زار جو کہ اپنی اونچائی کی سمت ایک گھنے جنگل سے شروع ہوکرگھاس اور پھولوںسے مزین ، شفاف پانی کے ٹھنڈے چشموں سے آراستہ ایک بڑے رقبے کااحاطہ کرتے ہوئے گہرائی میں مناپن گلیشئیر کی سلیٹی مائل سطح پر ختم ہوتا ہے۔سیاح عموماً اس مقام پر جو کہ ہپاکن کہلاتا ہے کم از کم ایک دن ضرور قیام کرتے ہیں۔ یہاں سے لیکر راکاپوشی بیس کیمپ تک کا سفر اسی گھنے جنگل میں اونچی نیچی پگڈنڈی پر مشتمل ہے۔ بائیں ہاتھ پر مناپن گلیشئیر اور دیران پیک ، پیچھے کی سمت مناپن گاﺅں،شاہراہ قراقرم ، ہنزہ اور نگر کے وسیع علاقے کا نظارہ تمام راستے آپ کا ساتھ دیتاہے۔

آپ کی اگلی منزل تغافری ہے جہاں پر راکاپوشی اپنے تمام تر ناقابل بیان حسین مناظر کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ تغافری کی وادی میں اترنے سے پہلے مناپن گلیشئر اپنی وسعت کے ساتھ پہلی دفعہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ ایک اونچے ٹیلہ نما مقام سے کھڑے ہو کر نیچے کی طرف دیکھیں تو گلیشئیر مختلف اشکال اور جسامت کے خوبصورتی کے ساتھ تراشے گئے مجسموں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے! یہ موسمی اثرات اور تیز ہواﺅں کا کرشمہ ہے اوربرف کو ان اشکال میں ڈھال کر قدرت نے انسان کے لئے ایک عجوبہ تشکیل دیا ہے۔

تغافری ، ہپاکن اور دیگر کیمپ سائٹس پر مختلف اداروں نے سیاحوں کی سہولت اور قدرتی حسن کی حفاظت کے لئے پتھروں سے احاطہ شدہ کیمپنگ ایریا بنائے ہوئے ہیں جبکہ پختہ یا لکڑی سے بنے بیت الخلا بھی موجود ہیں۔
راکا پوشی کی ایک اور خاصیت یہ ہے کے اکثر اوقات شدید دھند میں لپٹی رہتی ہے اور اپنے ساتھ بہت بڑے علاقے کو بھی دھند کے غلاف میں لپیٹ دیتی ہے۔اسی وجہ سے اسے مدر آف مِسٹ یعنی دھند کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔بعض اوقات اس دھند کی وجہ سے سیاح راکاپوشی کی ایک مکمل جھلک دیکھنے کے لئے کئی کئی روزانتظار بھی کرتے ہیں۔

بروشسکی زبان میںراکا پوشی کا مطلب برف کی دیوار ہے اور اس مقام سے اسے دیکھ کر یہ نام خود بہ خود دماغ میں ابھرتا ہے۔ تاحد نگاہ برف جو کہ گلیشئر سے لیکر چوٹی تک اور ہر طرف کئی مربع میل پرپھیلی ہوئی ہے۔ یہاں سے راکاپوشی کی تمام چوٹیاں اور گھاٹیاں ایک وسیع رقبہ پر محیط اور بلندی میں آسمان کو چھوتی آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔
عام سیاحوں سے لیکر مہم جوئی کے شوقین کوہ نوردوں کی بڑی بڑی ٹیموں تک بہت سے لوگ ملک و بیرون ملک سے پورا سیزن یہاں موجود رہتے ہیںاور کئی کئی ماہ تک یہاں کے نشیب و فراز کی تحقیقات اور تفریح میں مگن رہتے ہیں۔ اکثر سیاح اور کوہ نورد یہاں سے گلیشئیر پار کر کے دوسری طرف واقع ایک اور خوبصورت وادی کچیلی تک جاتے ہیں اور وہاںقیام کرتے ہیں۔

راکا پوشی کو سر کرنے کی بہت سی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور ایک طویل عرصے سے جاری ہیںلیکن معدود چند خوش نصیبوں کے سوا یہ اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔گلگت سے لیکر نگر اور ہنزہ کے تقریباً تمام علاقوں سے راکاپوشی کے نظارے قابل دید ہیں۔ سیاحت کے ان حسین مشہورومعروف علاقوں جہاں فطرت نے اپنے رنگوں کو ان گنت زاویوںمیں بکھیر رکھا ہے اور بیشمار بلند و برف پوش چوٹیوں میں بھی راکاپوشی اپنی انفرادیت کی وجہ سے نمایاںنظر آتی ہے اور سیاحوں کی نگاہیں ہر مقام سے اسی پر جمی رہتی ہیں۔

Leave a Reply