اسلام آباد سے لگ بھگ ایک گھنٹے کی دوری پر اور پیر سوہاوہ جیسے مشہور اور پرفضامقام سے صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پرمارگلہ پہاڑی سلسلے کی سب سے حسین وادی واقع ہے جس سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ سرسبز پہاڑیوں، جنگلات، پھولوں، کھیتوں، شفاف اور ٹھنڈے بہتے پانیوں سے مزین اس حسین وادی کا نام ‘نیلان بھوتو’ ہے۔ یہ وادی ویسے تو ضلع ہری پور کا حصہ ہے لیکن اسلام آباد سے یہاں تک تیس سے پینتیس کلومیٹر کا سفر کر کے پہنچنا زیادہ آسان ہے۔ اسلام آباد کے چڑیا گھر، دامنِ کوہ اور پیر سوہاوہ سے ہوتے ہوئے’ سنگدہ’ کے مقام پرایک راستہ وادی نیلان بھوتو کی طرف اترتاہے۔ اسلام آباد سے اس طرف آتے ہوئے سڑک کی بائیں جانب ایک بورڈ بھی مسافروں کی رہنمائی کے لئے موجود ہے۔ مرمت نا ہونے کی وجہ سے اس تنگ راستے کا حال نہایت خراب ہے۔ موٹر سائیکل یا جیب ہی اس راستے کے لئے موزوں سواری ہیں۔ عام کار اس شدید اترائی اور چڑھائی والے راستے پر لائی تو جا سکتی ہے لیکن اکثر جگہوں پر پتھریلی راستہ گاڑی کے فرش سے ٹکراتا ہے۔

کہیں گھنے درختوں اور کہیں سر سبز و شاداب نشیب میں واقع دیہات کے مناظراس راستے کی اصل خوبصورتی ہیں۔ نزدیکی بلندیوں سے نکلنے والے متعدد چشموں کا پانی ایک ندی کی شکل میں وادی کے پیچ و خم سے گزرتا ہے اور اس کے اطراف کہیں چٹانیں، کہیں درخت ، کہیں سرسبز کھیت اور کھیتوں کے اطراف مارگلہ کی پہاڑیاں بدلتے رنگوں اور نظاروں میں بدلتے جاتے ہیں۔ کہیں چیڑھ اور انواع و اقسام کے درخت اور کہیں گھاس سے ڈھکی ڈھلوانیں اس وادی کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ کسی بھی جگہ بہتے پانی کے کنارے، درختوں کی چھاﺅں یا پتھریلی چٹانیں ایک پرسکون پکنک کے لئے بہترین انتخاب ہو سکتی ہیں۔

نیلان بھوتو وادی اپنے وسط میں خاصی کشادہ ، ہموار اورزرخیز ہے۔ یہاں کا منظر کچھ یوں ہے کہ ایک وسیع و عریض اور ہموار وادی کاشت کاری کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور قابلِ کاشت زمینوں کے درمیان ایک کچا راستہ اور کہیں کہیں گاﺅں کے سادہ گھرایک بھرپور دیہی زندگی کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ اس کشادہ وادی کے وسط میں نیلگوں پانی رواں ہے اور ایک نہایت گھنا اور بلند و بالا درخت اس منظر کا مرکز ہے ۔ گاﺅں کے لوگ آرام اور ٹھنڈک کی غرض سے مارگلہ کے شاید سب سے بڑے اور سب سے خوبصورت اس درخت کی چھاﺅں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔

نیلان بھوتو کے آخر میں مشہور صوفی بزرگ حضرت بری امام سے منسوب ایک چلہ گاہ بھی موجود ہے جہاں دور دور سے عقیدت مندوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ اسی مقام پر حضرت بری امام سے منسوب دو عجائبات بھی موجود ہیں جن میں نیلان بھوتو کی ندی میں پتھریلا سانڈ اور بڑی تعداد میں مچھلیوں کی موجودگی شامل ہیں۔ سانڈ سے متعلق روایت ہے کہ ایک زندہ اور نہایت صحت مند سانڈ پتھر کا بنا دیا گیا تھا۔ مقامی زبان میں اس پتھر کو ‘سنڈا پتھر’کہا جاتا ہے۔ اس پتھر سے آگے ندی ایک تالاب کی شکل اختیار کرتی ہے جس میں چند سو مچھلیاں تیرتی نظر آتی ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اس کئی کلومیٹر طویل ندی میں یہ واحد مقام ہے جہاں اس قدر زیادہ مچھلیاں موجود ہیں۔ ان میں بعض مچھلیاں تو بلا مبالغہ ڈیڑھ سے دو فٹ لمبائی تک کی بھی ہیں۔مقامی لوگوں کی طرف سے یہاں مچھلی کے شکار یا انہیں نقصان پہنچانے پر مکمل پابندی ہے اور اس قسم کی کسی بھی کوشش کو انتہائی ناپسند کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی نیلان بھوتو کی اس انفرادیت کو برقرار رکھنا یہاں کے رہنے والوں اور تفریح یا زیارت کے لئے آنے والوں کے لئے بہت ضروری ہے۔

نیلان بھوتو ایک نہایت سادہ گاﺅں ہے جہاں اکا دکا دکانیں چند ضروری اشیاءفراہم کر سکتی ہیں۔ یہاں کھانے یا رہنے کے لئے کوئی بندوبست نہیں ہے ۔ پیر سوہاوہ روڈ پر متعدد ہوٹل موجود ہیں جو اعلیٰ رہائشی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سیر و تفریح کے چند گھنٹے گزار کر واپس چلے جاتے ہیں جبکہ عقیدت مند اور زائریں چلہ گاہ سے منسلک ایک مسافر خانہ میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ کیمپنگ کے لئے اس وادی میں بہت سے خوبصورت جگہیں ہو سکتی ہیں جہاں نزدیکی رہایشیوں سے اجازت لے کر کیمپنگ کی جا سکتی ہے۔ مقامی لوگ اور چرواہے کبھی کبھار نیلان بھوتو سے اسلام آباد کی مشہور شاہدرہ ویلی تک پیدل سفر بھی کرتے رہتے ہیں جو ٹریکنگ کے شوقین افراد کے لئے بھی ایک منفرد اور عمدہ ٹریک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک چرواہے کے مطابق رات کے وقت جانوروں کے ریوڑ کے ساتھ شاہدرہ کی جانب سے یہ سفر سات سے دس گھنٹے میں طے ہو تا ہے۔ اسلام آباد کی سپر جناح مارکیٹ کے پاس سے چند جیپیں نیلان بھوتو کے لئے مخصوص اوقات میں روانہ ہوتی ہیں جن کے ذریعے بھی اس حسین وادی تک پہنچا جا سکتاہے۔

نیلان بھوتو میں بجلی اور بچوں کے سکول تو موجود ہیں لیکن پختہ سڑک کی غیر موجودگی مقامی آبادی کے لئے بہت سی دشواریاں پیدا کرتی ہے۔اس سڑک کی تعمیر مقامی آبادی اور سیاحوں کی سہولت کے لئے بہت ضروری ہے ۔

Leave a Reply