حسن ابدال تا کاشغر۔ 1300کلومیٹر طویل یہ شاہراہ ناصرف پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی رابطوں کا اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقوں کو وفاقی دارالحکومت اور دیگر شہروں سے ملانے کے ساتھ ساتھ ملک کے حسین ترین پہاڑی اورتاریخی مقامات تک پہنچنے کا اہم زمینی راستہ بھی ہے۔ ٹیکسلا کی گندھارا تہذیب ہو یا خنجراب کی مارکوپولو بھیڑیں، چلاس کے پتھروں پر لکھی قدیم تحریریں ہوں یا ہنزہ و نگر کے حسین مناظر، یہ شاہراہ سیاحوں اور محققین کے ذوق کی تسکین کا اہم ذریعہ ہے۔

پاکستان اور چین کے انجنئیروںاور محنت کشوں کی شبانہ روز محنت و جرات کا یہ وہ انمول نمونہ ہے جسے دیکھ کر دنیا کا کوئی بھی شخص حیرت کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ گنا جاتا ہے۔ عظیم اور دشوار ترین پہاڑوں کے درمیان اس عجوبے کی تعمیرکے دوران چار سو سے زائد مزدوروں اور انجنئیروں کی جان ایک عظیم مقصد کی نذر ہوئی۔ موسموں کے اتارچڑھاﺅ ،شدید ترین برف باری اور لینڈسلائیڈنگ کے ہمہ وقت خطرے کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا اور برقرار رکھنا حقیقتاً ایک معجزہ ہی ہے اور اس معجزے کو ممکن بنانے میں ایف ڈبلیو او کے ماہرین اور کارکنوں کا کردار قابل تحسین ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے پونے گھنٹے کی مسافت پر حسن ابدال کے قریب جی ٹی روڈ سے ایک سڑک ایبٹ آباد کی طرف نکلتی ہے اور یہی اس شاہکار شاہراہ کا نقطہ آغاز ہے۔ ٹیکسلا کے مشہور کھنڈرات یہاں سے صرف پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع ہیں۔ قبل مسیح کی بدھ مت تہذیب کی ان یادگاروں کو دنیا کے اہم ثقافتی ورثے میں شمار کیا جاتا ہے۔ جولیاں، سرکپ اور بھڑماﺅنڈ وغیرہ کے ان کھنڈرات کی سیاحت انسانی تاریخ کے عروج و زوال، تہذیب و ثقافت اور فن تعمیر کی فراموش شدہ داستانوں سے آشنا کرتی ہے۔ مہاتما بدھ اور دیگر شخصیات کے مجسموں سے لے کر عام گھریلو برتنوں اور تعمیرات کی باقیات تک ہر ہر چیز گزشتہ اور موجودہ دور کے انسان کی سوچ، رہن سہن، ضروریات، رسوم ورواج اور علوم وفنون کے درمیان موازنہ فراہم کرتی ہے۔

شاہراہ قراقرم کا آغاز ضلع ہزارہ میں ہے۔ ہزارہ کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق آبادیاں آپ کا ساتھ تھاکوٹ تک دیتے ہیں۔ تھاکوٹ سے پہلے ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں سے گزرتے ہوئے ایک پرفضا علاقے کا خوابناک تصور حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔مانسہرہ سے ناران اور کاغان کے لئے ایک سڑک الگ ہوجاتی ہے جو ان حسین وادیوں تک رسائی کو ممکن بناتی ہے۔ تھاکوٹ سے عظیم دریائے سندھ بل کھاتا ہواشاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ گلگت تک چلتا ہے۔ تھاکوٹ کے مشہور طویل پل سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ اپنی وسعت اور عظمت کے ساتھ آپ کے سامنے ہے جو آپ کے بائیں طرف پہاڑیوں کے پیچھے دنیا کے سب سے بڑے ڈیم تربیلا کو پانی کا ذخیرہ فراہم کررہا ہے۔ یہاں سے آگے اکثر مقامات پر دریائے سندھ اور سڑک کے درمیاں گہرائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ عظیم دریا نیچے بہت ہی نیچے گہرائی میں صرف ایک لکیر کی شکل میں نظر آتا ہے۔

بشام شاہراہ قراقرم پر اہم مقام ہے جو تھاکوٹ سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ بشام ضلع سوات میں ہے اور چینی مصنوعات کا ایک تجارتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد اس مقام سے براستہ شانگلہ سوات کے دیگر قابل دید مقامات تک رسائی ممکن ہے۔ بشام سے گردوپیش کے کوہستانی علاقے کا نظارہ دریائے سندھ کے ساتھ ایک دلآویزمنظر پیش کرتا ہے۔

بشام سے آگے چلیں تو دریائے سندھ کے دونوں طرف آباد ضلع کوہستان کے لوگ بازاروںمیںاپنے روایتی لباس اور روزمرہ کے کاموں میں مشغول میں نظر آتے ہیں۔ کوہستان کا علاقہ بھی حسین قدرتی مناظر سے لبریز ہے اور لکڑی سے بنے گھراور دوکانوں کودیکھ کر سردی کے موسم میں یہاں ٹھنڈ کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کوہستان کے اکثرمقامات پر لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے شاہراہ قراقرم کو نقصان پہنچتا رہتا ہے اور سڑک بھی بند ہوجاتی ہے لیکن ایف ڈبلیو او کے جوان کم وقت میں روڈ کو استعمال کے قابل بنا دیتے ہیں۔ کوہستان میں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

کوہستان کے بعد چلاس کا آغاز ہوتا ہے۔ چلاس کا علاقہ خشک اور بنجر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ بلندیوںمیں اور پہاڑوں کے اندر مختلف جگہوں پر سرسبز چراہ گاہیں موجود ہیں جہاں درختوں کی بھی بہتات ہے لیکن شاہراہ قراقرم کے ساتھ چلاس کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں قبل مسیح کے دور میں پتھروں پر کھدائی کر کے بنائی گئی مختلف تصاویر اور اشکال وغیرہ موجود ہیں۔ یہ اشکال اس تاریخی راستے سے گزرنے والے تاجروں، فوجیوں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے بنائی تھیں۔ انسانوں اور جانوروں کی تصویروں، تکونی اورگول اشکال سے مزین یہ چٹانیں بہت سے لوگوں کے لئے دلچسپی کا مرکز ہیں۔ چلاس کو دیامر بھی کہا جاتا ہے اور اسکی وجہ دیامر نامی وہ بلند پہاڑی چوٹی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ نانگاپربت کے نام سے عام طور پر جانی جانے والی اس چوٹی کا نام دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے دلچسپی کا حامل ہے۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں اس کا نمبر نواں ہے لیکن خطرناکی کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے خطرناک اور مشکل چوٹی ہے۔ اس چوٹی کا مقامی نام دیامر ہے اور یہ تمام علاقہ اسی نام سے جانا جاتا ہے۔ شاہراہ قراقرم سے اس چوٹی کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔رائی کوٹ کا پل اس سڑک پر ایک مشہور مقام ہے اوریہاں سے نانگاپربت اور فیری میڈوز کے لئے جیپیں تقریباً ہروقت مل سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نانگاپربت شاہراہ قراقرم کی شہرت کو چارچاند لگانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
چلاس یا دیامر کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جگلوٹ شاہراہ قراقرم پر آباد ایک اہم مقام ہے جہاں سے استور، دیوسائی ، بلتستان اور نانگاپربت کے لئے عازم سفر ہوا جاسکتا ہے۔

جگلوٹ کے مقام پر ہی عین شاہراہ قراقرم پر ایک ایسا مقام ہے جہاں دنیا کی تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایک سفید رنگ کی یادگار اس جگہ پر قراقرم ، ہمالیہ اور ہندوکش کے ملاپ کی نشاندہی کے لئے تعمیر کی گئی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر کھڑے ہو کر آپ تینوں پہاڑی سلسلوں کو بیک وقت دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سے ایک سڑک جو گلگت سکردو روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے، شاہراہ قراقرم سے الگ ہو کر بلتستان کی طرف جاتی ہے جہاں ان گنت مقامات ایڈونچر اور پہاڑوں کے شائقین کا انتظار کررہے ہیں۔

گلگت شمالی علاقہ جات کا صدر مقام اور ایک خوبصورت پہاڑی شہرہے۔ اپنی سیاحتی، تجارتی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث اس شہر کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ شاہراہ قراقرم سے گلگت شہر کا فاصلہ چند کلومیٹر کا ہے اور یہاںسے بے شمار خوبصورت علاقے آپ کی پہنچ میں ہیں۔ نلتر، اشکومن، غذر، یاسین، شندوراور دیگر بہت سے علاقے گلگت میں شامل ہیں اور بذریعہ جیپ آپ ان تمام علاقوں کی سیاحت کر سکتے ہیں۔

گلگت سے کچھ دیر کے فاصلے پر نگر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ راکاپوشی نگر کی پہچان ہے اور یہ عظیم الشان چوٹی شاہراہ قراقرم پرجگہ جگہ پہاڑوں کے پیچھے سے اپنا جلوہ دکھاتی رہتی ہے۔ نگر اور ہنزہ آمنے سامنے شاہراہ قراقرم کے دونوں طرف آباد ہیں اور آبشاروں، گلیشئیروں، پہاڑی چوٹیوں اور دریاﺅں کی بہتات کے باعث ایک لمحہ بھی سیاحوں کی توجہ اپنے اوپر سے ہٹنے نہیں دیتے۔ راکاپوشی، دستگیل سر، کنیانگ کش، التر، بتورہ، پسو اور دیگر بہت سی چوٹیاں، بتورہ اور پسو کے طویل گلیشئیر اور ہنزہ، خنجراب اور کئی چھوٹے دریا اس شاہراہ کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔

سوست ،ہنزہ کا وہ حصہ ہے جو انتظامی طور پر پاکستان اور چین کے درمیان بارڈر کا کام کرتا ہے۔ یہاں چین سے درآمد شدہ اشیاءکی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور بہت سے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز یہاں مصنوعات کے تبادلہ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
سوست سے آگے خنجراب تک کا سفر بالکل بے آباد ہے اور دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب کے مقام پر شاہراہ قراقرم کی بلندی 4800میٹر تک پہنچ جاتی ہے جہاںاسے دنیا کی بلند ترین عوامی شاہراہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوتاہے۔ درہ خنجراب تمام سال برف سے ڈھکا رہتا ہے اور دور تک بلند پہاڑ سفید چادر اوڑھے نہایت حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ مئی سے لیکر اکتوبر تک اس سڑک پر تجارت اور سفر جاری رہتاہے جبکہ باقی تمام مہینوں میں یہ شاہراہ شدید برف کی وجہ سے بند کر دی جاتی ہے۔

خنجراب کی ایک اور خصوصیت ایک بہت بڑے علاقے کو خنجراب نیشنل پارک کی حیثیت ملنا بھی ہے۔ یہاں دنیا کے چند منفرد اور معدوم ہوتی ہوئی جنگلی حیات موجود ہے جس میں مارکوپولو بھیڑیں، برفانی چیتے اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔ دیگر جنگلی حیات میں، مارموٹ، بھیڑیا، بھورے ریچھ، یاک اور مارخوروغیرہ شامل ہیں۔ خنجراب کا سفر ایک نہایت یادگار اور دلچسپ سفر ہے جس کی مثال کسی بھی دوسرے سفر کے ساتھ نہیں دی جاسکتی۔

Leave a Reply