نیلے پانیوں، چاروں طرف کے اونچے پہاڑوں کے عکس اور دلچسپیوں سے بھرپور سفر کی بدولت جھیلوں کے شائقین کے لئے یہاں ہر طرح کی کشش موجود ہے۔ اپنی تمام تر رعنائیوں اور کالام جیسے پررونق مقام سے قربت کے باوجود اس جھیل کو دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں۔ بلندی، مسلسل چڑھائی اور کم معروف ہونے کی وجہ سے سوات کا سفر کرنے والے اکثر سیاح

اس جھیل کے نام اور محل وقوع سے بھی واقف نہیں۔
سوات کے مشہور ترین مقام کالام سے کوئی ایک گھنٹہ جیپ کے ذریعے اتروڑ کی حسین وادی اس جھیل تک رسائی کی پہلی منزل ہے۔ وادی اتروڑ ایک نہایت خوبصورت وادی ہے جس کے اطراف میں جنگلات سے بھرپور پہاڑ ہیں۔ایک پرشور، یخ بستہ اور صاف پانی کا دریا وادی میں، جب کہ متعدد جھیلیں ان پہاڑوں کی بلندیوں پر واقع ہیں۔ ان جھیلوں میں کنڈول اور لدو کا نام قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ دسان کی خوبصورت سرسبز و شادب ڈھلوانیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اتروڑ کی پہاڑیاں کالام کی نسبت کہیں زیادہ سرسبز اور درختوں سے لبریز ہیں۔ کالام کی نسبت کم پر ہجوم ہونے کی وجہ سے اتروڑ میں سکون اور سکوت کا احساس ہوتا ہے۔

اتروڑ بازار سے دریا کے ساتھ ساتھ ایک تنگ لیکن پختہ سڑک پرکنڈول کی طرف سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سڑک دریا پر بنائے گئے ایک پل سے ہوتی ہوئی دسان کی طرف جاتی ہے۔پل پار کرتے ہی ایک تباہ شدہ ہوٹل ہے۔ یہاں سے ایک کشادہ راستہ دسان کی طرف جاتا ہے جبکہ کنڈول جھیل کے لئے دریا کے متوازی ریت اور پتھروںکا نظر نا آنے والا راستہ ہے۔ دریا کے بائیں کنارے پتھروں پرچلتے ہوئے کچھ ہی دیر میں درختوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ درختوں کے اس سلسلے سے باہر نکلیں تو اتروڑ کا آخری عارضی گاﺅں ہے۔ یہ پاکستان کے چند حسین ترین دیہات میں سے ایک ہے۔ آلوﺅں کے وسیع کھیتوں، اور اطراف کے سرسبز پہاڑوں کے درمیان اس گاﺅں میں انتہا کا سکون ہے۔ ایک فراخ وادی میں کھیتوں کے درمیان ایک تنگ کچے راستے سے گزرتے ہوئے گاﺅں کے اختتام تک یہ ایک آسان سفر ہے۔ گاﺅں کے اختتام پر گرمیوں کے وسط تک ایک مختصر سا گلیشئر موجود رہتا ہے۔ یہ گلیشئیر بلند پہاڑوں سے آنے والے ایک نہایت تیز رفتار نالے کو بھی ڈھانپے رکھتا ہے۔ احتیاط کے ساتھ اس گلیشئر پر سے اس نالے کو پار کر کے ایک بلند اور تنگ پگڈنڈی کنڈول جھیل کے راستے کا نشان ہے۔

اس تنگ پگڈندی پر بلندی کا یہ سفر مستقل مزاجی اور تندرستی دونوں کا امتحان ہے۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں یہ سفر بہت سا وقت اور طاقت بچا سکتا ہے۔ آغاز کے مشکل سفر کے بعد گھنے درختوں کا ایک سلسلہ اس سفر کو کافی حد تک آسان بنا دیتا ہے۔ سبزے کی بہتات کی وجہ سے راستے پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ جھاڑیوں، درختوں اور گھنی گھاس کے باعث بہت سے مقامات پر درست راستے پر قائم رہنا مشکل کام ہے۔ لیکن راستہ کھونا اور پھر درست راستے کو پانا اس گھنے جنگل میں کہیں زیادہ مشکل ہے۔ اس مسلسل چڑھائی کا اختتام اچانک ہی ہوتا ہے اور ایک گہری کھائی سامنے آ جاتی ہے۔ اس کھائی میں پانی کا نالہ کافی گہرائی میں نظر آتا ہے۔ یہ کھائی جھیل کو پہنچنے کے لئے آخری امتحان ہے ۔کھائی کے دوسری طرف طویل ٹیلے نما بلندی میں کنڈول جھیل واقع ہے۔ دائیں سمت بلندی کی طرف برف کا ایک اور گلیشئیر اس کھائی اورنالے کو ڈھانپے ہوئے نظر آتا ہے ۔ یہی گلیشئیر اس کھائی کو پار کرنے کا آسان ترین ذریعہ ہے۔ اس گلیشئیر تک پہنچنے کے لئے دائیں ہاتھ پر بلندی کی سمت ایک پتھریلا میدان نما علاقہ ہے۔میدان کے اختتام پر گلیشئئر کا آغاز ہے اور چند منٹ کی جدوجہد کے بعد کنڈول جھیل اچانک نظرو ں کے سامنے آ جاتی ہے۔

کنڈول جھیل کی وسعت، پانی میں جھلکتے نیلے آسمان اور گرد و پیش کے پہاڑو ں کا عکس ،راستے کی دقتوں اور تھکاوٹوں کو پل بھر میں دور کر دیتا ہے۔ اردگرد کی برف پوش چوٹیوں،سر سبز ڈھلوانوں اور درختوں کے درمیان کنڈول جھیل ایک گول پیالے کی صورت میں دلفریب نظارہ پیش کرتی ہے۔ ماحول کے سکوت اور ٹھنڈی ہوا میں جھیل کے کنارے وقت گزارنا یقینا ان پر راحت لمحوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جو میدانوں کی گرمی اور شہروں کے شور شرابے میں بھی اپنی یاد دلاتے ہیں۔اگرچہ جھیل کے کنارے ایک کچا اور عارضی سا کمرہ موجود ہے جو شاید چائے خانے وغیرہ کے لئے بنایا گیا ہو۔ لیکن اکثر غیر آباد ہونے کی وجہ سے یہ ضروری ہے کے قیام و طعام کی تمام لوازمات اپنے ہمراہ لے جائی جائیں۔ ڈھائی سے چار گھنٹے کے اس مشقت طلب پیدل سفر کے بعد بھوک اور پیاس سے نمٹنے کے سامان کا ہونا لازمی ہے۔

اگرچہ اتروڑ کے بازار سے بنیادی ضروریات کی اشیاءدستیاب ہیں لیکن سیاحتی حوالے سے سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں۔ رہائشی سہولیات کی قلت اور کسی قابل ذکر ہوٹل کا نا ہونا سیاحوں کے لئے مشکلات کا سبب ہےں۔

Leave a Reply