انسانی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نقصانات کے بارے میں حالیہ عشروں میں جو کچھ کہا اور لکھاجا چکا ہے اس سے دنیا بھر کے لوگوں کے شعور میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس شعور سے کما حقہ فائدہ اٹھانے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔ غریب اور کم تعلیم یافتہ معاشروں میں ابھی کن اقدامات کی ضرورت ہے اور تعلیم یافتہ مہذب معاشروں میں کن تیز رفتار اقدامات کو روکنا ضروری ہے۔ لیکن یہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کی برفیں تیزی سے پگھل اور سمندر کی نذر ہوتی جا رہی ہیں جبکہ سیاح غائب ہیں۔ موسموں کی یہ شدت میدانوں سے نکل کر ان وادیوں کو بھی متاثر کررہی ہے جہاں کے لوگ گرمی کے نام سے بھی ناآشنا ہیں۔ ان بلندیوں کی رنگت بھی شاید سنولا رہی ہے جو اب تک نیلگوں سفیدہیں اور ان سفیدیوں پر سرمئی بادلوں کا سایہ ہے۔

اس حقیقت کی ایک مثال گزشتہ ماہ گلگت کی مشہور وادیوں کی سیاحت کے دوران جابجا دیکھنے کو ملتی رہی۔گرمی کی شدت پاکستان کے میدانی اور جنوبی علاقوں میں تو ہر سال اپنا اثر دکھاتی ہے اوریہاں کے لوگوں کو اس کو عادت بھی پڑ ہی جاتی ہے، لیکن یہ پانچ چھ دن جو گلگت اور اس کے مضافات میں گزرے زیادہ تر موسم اور انسانی رویوں میں تبدیلی کے ان علاقوں پر اثرات کے بارے میں ہی سوچتے گزرے۔

گلگت سے دریائے غذر کے کنارے ایک طویل جیپ کے سفر میں اس دریا کا حجم اوررفتار جب کہ جابجا روکاوٹیں اور تلاشی ہماری توقعات سے کئی گناہ زیادہ تھی۔دریاکے کنارے وہ درخت جو یقینا دریا کی حدود سے باہر ایک ترتیب سے لگائے گئے تھے کئی کئی فٹ دریا کے اندر دکھائی دیتے تھے ۔اس دریا کا سبز پانی جو شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک کی ایک خاص تاثیر رکھتا ہے ابھی بھی سبزی مائل تھا لیکن گدلا رہا تھا ۔ پونیال اورگوپس کے ہموار اور نشیبی علاقے مکمل زیر آب تھے ۔پھنڈر کے علاقے میں چند مقامات پر تو یہ پانی سڑک سے بھی ٹکراتا تھا ۔

مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ گرمی کی شدت کے باعث دریا میں پانی کی اس قدر زیادتی ہے کہ یہ کناروں سے کئی کئی میٹر باہر نکل آیا ہے۔

آپ ٹراﺅٹ مچھلی مانگتے ہو؟ پانی گندا ہوگیا!اس میں مچھلی کا شکار نہیں ہوتا۔ کئی گھنٹے بیٹھو تو شاید کوئی دانہ ہاتھ لگ جائے۔ وہ لڑکا صبح سے پانی میں کنڈی ڈالتا ہے لیکن مچھلی نہیں آتا۔

جانے سرد شفاف پانیوں کی عادی اس نادر مچھلی کی جان پراس ریتلے پانی میں کیا بنی ہوگی؟

غذر کے طویل و عریض علاقے کی خوبصورتی لاجواب ہے۔ بھورے پہاڑوں کے درمیان بہتا سبزی مائل دریا جس سے اٹھتی ٹھنڈی ہوائیں جھلستی دھوپ کی تپش کو بھی زائل کر ڈالتی ہیں ۔ اور یہی اس علاقے کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ خوبانی، شہتوت، انگور، انجیر اور جانے کیسے کیسے میووں کے جھنڈ ہوا میں بھی اپنی مٹھاس بکھیرتے ہیں۔ جابجا اونچے درختوں کے درمیان لہلہاتی فصلیں جو اس دریا کے پانی سے ہی سیراب ہوتی ہیں انسان پر وجد کی کیفیت طاری کرنے پر قادر ہیں۔ ان مقامات پر جہاں دریا کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے، ایسی بے مثال جھیلیں وجود میں آتی ہیں جنہیں دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ کہاں دریا کی وہ تندی جو اس کی طرف دیکھنے سے خوفزدہ کرتی ہے اور کہاں یہ ٹھہراﺅ جس کو دیکھ کر کوئی گمان تک نہیں کر سکتا کہ کسی مقام پر اس پانی کا ایک چھینٹا بھی اڑ سکتا ہے۔

وہ جھیلیں جو دریا سے کٹی ہوئی اپنی علیحدہ شناخت قائم رکھے ہوئے ہیں آج بھی نیلگوں ہیں ۔ ان جھیلوں میں آج بھی آسمان جھک جھک کر دیکھتا ہے۔ سامنے کے منظر کی تصویر جھیل میں زیادہ صاف نظر آتی ہے۔ گہرائی جتنی بھی ہو جھیل کی تہہ تک نظر کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔زیرآب اپنی دنیا میں مگن ٹراﺅٹ مچھلیاں ہر آنکھ بآسانی دیکھ سکتی ہے ۔ لیکن ذہن میں یہ خیال ضرور آیا کہ یہ پانی بھی کسی برفانی چوٹی سے اترا ہے۔ اگر کبھی ایسا وقت آیا جب برفیں زیادہ پگھلیں تو ریت، گارا اور پتھر پانیوں میں ضرور آئے گا۔ شیشے سے زیادہ شفاف ندیاں گلیشئیر سے نکلتے دریا کی مانند گدلی ہو جائیں گی۔ اور جب یہ پانی ان جھیلوں میں اترے گا تو کیا یہ بھی ایسی ہی ریتلی ہوں گی جیسا کہ دریائے غذر ان گرمیوں میں نظر آتا ہے؟کیا ان کا پھیلاﺅ بھی کچے کناروں کو پہلے زخمی اور پھر ملیامیٹ کرتا رہے گا؟ لہلہاتی فصلوں کی جگہ کٹے پھٹے بے آباد قطعے دلدل کی مانند دکھائی دیا کریں گے؟ نامعلوم صدیوں کے اس طلسم ہوشربا کا حسن گہنا جائے گا؟ٹراﺅٹ مچھلی کے شکار کی کہانیاں ہی باقی رہ جائیں گی؟

یہ ہمارا ہمیشہ کا مشاہدہ ہے کہ بلندیوں سے اترتے نالوں، ندیوں اور دریاﺅں کا تیز رفتار اور پھواریں اڑاتا بہاﺅ ہمیشہ سے ہی اپنی مثال آپ ہے ۔اور جب یہ چھوٹے بڑے پانی کسی مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے ہوں تو یقینا اس مرکزی دھارے کی گہرائی اور چوڑائی میں اضافے کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ گلگت کے ایسے کئی مرکزی دریاﺅں میں دریائے ہنزہ اور دریائے غذر کا شمار بھی کیا جاتا ہے۔ ان مرکزی دریاﺅں میں لاتعداد چھوٹے بڑے ندی نالے شامل ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر یہ دریا ئے سندھ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دریائے ہنزہ میں چین کی سرحد سے لے کر نگر، ہنزہ اور نلتر وغیرہ کے وسیع و عریض علاقوں کا پانی شامل ہوتا ہے جبکہ دریائے غذر کو ہندوکش اور پامیر کے پہاڑوں سے پگھلنے والا پانی قابل دید روانی بخشتا ہے۔ دریائے غذر اپنے سبزی مائل شفاف پانیوں کی وجہ سے شندور تک کے سفر کو آج بھی خوبصورتی کا ایک نیا تصورعطا کرتا ہے۔ غالباًیہ دریا پاکستان میں ٹراﺅٹ مچھلی کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ اس کے سرد پانیوں میں ٹراﺅٹ مچھلی کی افزائش کا ایسا قدرتی انتظام موجود ہے جس کے باعث ایک طویل و عریض علاقے میں کسی بھی جگہ مچھلی کا شکار کیا جا سکتا ہے۔

اب تک تو یہ سب ہے۔ اللہ کا احسان ہم پر ہے۔سیاح نہیں ہیں لیکن زمین ہماری ہے۔

ڈر صرف یہ لگتا ہے کہ لوگوں اور موسموں میں آتی تبدیلیاں اگر شدت پکڑتی گئیں تو شاید وہ سب جس کو سن کر، پڑھ کر اور تصویروں میں دیکھ کر بھی طبیعت آسودہ ہو جاتی ہے، بھولے ہوئے خواب نا ہو جائیں۔ اپنی طرف کھینچنے والی وادیاں آبادیوں کا رخ کرتے مہاجروں کا پڑاﺅ نا بن جائیں۔ زرد خوبانیوں سے لبریز کوئی درخت دریا میں اتنی دور نا چلا جائے کہ پہنچ سے باہر ہو جائے۔ دریا کنارے، ٹراﺅٹ کی آس میں وہ لڑکاکہیں پتھر نا ہوجائے۔

Leave a Reply