سر سبز گھاس سے مزین میدانوں، ہزار ہا رنگ کے پھولوں، شفاف پانی کی ندیوںاور گھنے دیودار کے جنگلات پر مشتمل ایک خطے کو اگر پریاں اپنا مسکن بنا لیں تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں!

مقامی لوگوں کاکہناہے کہ پریوں نے ہمالیہ کے اس حسین ترین خطے کو اپنی جنت کے طور پر چن رکھا ہے ۔ ادبی ذوق والے انسانوںنے بھی یہاں کے قدرتی حسن سے متاثر ہو کراس توجیہہ کو تسلیم کیا اور بالآخر یہ خوبصورت ترین جگہ’ فیری میڈوز’ یعنی ‘پریوں کی چراگاہوں’ کے نام سے تمام دنیا میں شہرت اختیار کر گئی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جادوئی حسن تو شاید دنیا کے کسی اور مقام پر بھی مل جائے لیکن استشناءجو اس وادی کو حاصل ہے وہ اس خوبصورت، سرسبز و شاداب وادی کے سرے پر موجود اس پہاڑ کی وجہ سے ہے جو دنیا کے انتہائی مشہور و معروف پہاڑوں میں سے ایک ہے۔

نانگا پربت برفانی چوٹیوںکا ایک سلسلہ ہے جو ایک نصف دائرے کی شکل میں فیری میڈوز کودواطراف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ ‘ نانگا پربت’ کو جب فیری میڈوز سے دیکھا جائے تو یہ جگہ بالحقیقت دماغوں کو تسخیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سفید برف پوش چوٹیوںمیں گھرا ہوا، تما م دن برف کی ٹھنڈک ،تازہ ہواﺅں اورمعطر فضاﺅں سے لبریز ایک جنت نظیر وادی میں کسی ٹھنڈے پانی کے چشمے کے کنارے بیٹھ کر انسان کی کیفیات کیا ہو سکتی ہیں، ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق اس کا اندازہ بآسانی لگاسکتاہے۔

فیری میڈوز کی اوسط بلندی 3600میٹر ہے اور جغرافیائی لحاظ سے یہ کوہ ہمالیہ کے انتہائی مغربی کنارے پر واقع ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آبادسے 540کلومیٹر کے فاصلے پر شاہراہ قراقرم پر واقع ‘رائی کوٹ’ فیری میڈوز کے لئے پختہ سڑک کا آخری سٹاپ ہے۔ رائی کوٹ، دریائے سندھ پرتعمیر کےے گئے ایک بڑے پل کی وجہ سے بھی مشہور ہے اور چلاس یا دیامر ڈسٹرکٹ کی حدود میں واقع ہے۔ رائی کوٹ سے پرائیویٹ جیپ آپ کو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں 2900میٹر کی بلندی پر واقع ایک گاﺅں ‘تتو’ تک پہنچائے گی۔

رائی کوٹ موسم گرما میں ایک تنور کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ چاروں طرف موجود پتھریلے تانبے کی رنگت کے پہاڑ اور دریائے سندھ کے کنارے موجود ریت دھوپ کی تمازت سے دہک رہی ہوتی ہے۔ رائی کوٹ سے جب جیپ پر سفر کا آغاز ہوتا ہے تواچانک انتہائی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ چڑھائی ایک لامتناہی شکل میں ان گنت موڑوں اور گہرائی میں بہنے والے دریائے رائی کوٹ سے خاصی بلندی پر آپ کے ساتھ تتو تک جاتی ہے۔ یہ راستہ ایک گرم خشک سفر پر مشتمل ہے اور مقامی لوگ جو زیادہ تر پیدل سفر کرتے ہیں صبح یا شام کے وقت اس راستے پرنکلتے ہیں۔نانگا پربت پہاڑوں کی اوٹ سے راستے کے موڑوں پرکہیں کہیں اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے اور اگر پیچھے کی طرف نگاہ ڈالیں تو فاصلے پر راکاپوشی پہاڑ کے نظارے بھی قابل دید ہیں۔

تتو پہنچنے پر ایک تازہ اور ٹھنڈے پانی کا شفاف چشمہ سفر کے اختتام کا اعلان کرتا ہے۔ اکثر سیاح یہاں پہنچتے ہی اس چشمے پر جمع ہو جاتے ہیں اور سفر کی تھکاوٹ کو اس پر تاثیر پانی سے اتارتے ہیں۔تتو بھی ایک پر فضا مقام ہے اوریہاں پہنچ کر تمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں لکڑی اورٹین کے بنے ایک دو ہوٹل بھی موجود ہیں جہاں چائے اور کھانا وغیرہ دستیاب ہیں۔ کیمپنگ کی جگہ بھی تتو میں موجود ہے۔ تتوکے اس نام کی وجہ گاﺅں میں موجود ایک گرم پانی کا چشمہ ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جیپ آپ کو اتارتی ہے وہاں چشمے کے بہاﺅ کے مخالف سمت یعنی اپنے دائیں جانب چشمے کے کنارے کنارے کچھ دور تک جانے پر ایک خوبصورت آبشار بھی موجود ہے جو عمومی طور پر سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہے۔

تتوسے آگے فیری میڈوز تک آپ کو پیدل سفر کرنا ہو گایا اگر چاہیں تو کرائے کے خچر یا گھوڑے کا بندوبست بھی ممکن ہے۔ اگر آپ کے پاس زیادہ سامان ہے تو آپ تتو گاﺅں سے مناسب معاوضہ کے عوض پورٹر کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں جو آپ کے سفر کو آسان بنا نے میں مددگار ہو گا۔تتو سے فیری میڈوز تک کا پیدل سفر بہت سے لوگوں کو خاصا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ وجہ ایک متواتر چڑھائی ہے جو کافی دیر تک دھوپ میں اور بلندی تک طے کرنی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا صلہ اس مشقت سے بہت بڑھ کر ہے۔ اگر آپ پیدل سفر کر رہے ہیں تو اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھنا مت بھولیں۔ عام طور پر یہ سفر تین سے پانچ گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے لیکن نوجوان اور پیدل چلنے کے عادی افراد اس سے کم وقت میں بھی فیری میڈوز تک پہنچ سکتے ہیں۔

فیری میڈوز پہنچنے سے قریباً آدھا گھنٹہ قبل آپ کاگزر ایک گھنے جنگل میں ہوتاہے جہاں قدم قدم پر ٹھنڈے پانی کی موجودگی اور نانگا پربت کا نظارہ آپ کو اپنی محنت کے پھل کا ہلکا سے اندازہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں آپ کو ایک اور حیرت سے بھی واسطہ پڑتا ہے! رائی کوٹ دریااپنے ماخذ رائی کوٹ گلیشئیرسے نکلتا ایک عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ گلیشئیرکادہانہ ایک غار سے مشابہ ہے اور جن لوگوں نے گلیشئیر نہیں دیکھا انھیں بہت دیر تک یقین ہی نہیں آتا کہ یہ کسی گلیشئر کا نقطہ اختتام ہے۔ سیاہ رنگ کا ایک جناتی اژدہا کئی کلومیٹر لمبائی اور چوڑائی پر مشتمل رائی کوٹ کی بلند چوٹی سے اترتا اس مقام پر دریاکی شکل میں ڈھل رہاہے۔

فیری میڈوز میں داخل ہوتے ہی ہر طرف سبزہ و شادابی، بائیں طرف نانگا پربت اور نیچے رائی کوٹ گلیشئیر آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔فیری میڈوز میں ایک مختصر سی جھیل بھی موجود ہے۔ اس جھیل میں جب آس پاس موجود درختوں اور نانگا پربت کا عکس پڑتا ہے تو ایک ناقابل بیان قدرتی حسن کا مظاہرہ دیکھنے کوملتاہے۔

یہاں پر دو ہوٹل اور کیمپنگ کے لئے بہت سے خوبصورت جگہیں ہیں جوآپ اپنی پسند کے مطابق منتخب کر سکتے ہیں۔ اگر خوراک کا انتظام آپ اپنے ساتھ لائے ہیں تو خوب، بصورت دیگر یہاں خوراک آپ کو عام حالات سے کئی گنا زیادہ قیمت پر ملے گی۔ اس کی وجہ اس دشوار گزار علاقے تک سامان پہنچانے کے اخراجات ہیں۔

فیری میڈوز سے نانگا پربت بیس کیمپ تک آپ ایک دن میں جا کرواپس آ سکتے ہیں۔ اس سفر میں ایک مقامی گائیڈ بہت سی مشکلات میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ راستے میں آنے والے گلیشئیر ہیں جو نا واقف سیاحوں کے لئے خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور بھول بھلیاں بھی۔ فیری میڈوز سے نانگا پربت کی سمت سفر کا آغازگھنے جنگل میں آسان اور ہموارپگڈنڈی پرہے اور ‘بیال’تک تمام راستہ نہایت پر سکون اور آسان ہے۔ یہاں سے آگے کا سفر پہلے چڑھائی پر مشتمل ہے اور پھر اترائی پر۔

اترائی کے بعد آپ کبھی گلیشیئرپر چلتے ہیں توکہیں یخ بستہ تیزرفتار پانی میں راستہ بناتے ہیں۔ گلیشیئر کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر ایک چڑھائی کا سامنا کرنا ہوتا ہے جو آپ کو کچھ ہی دیر میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پہنچا دیتی ہے۔ یہاں سے نانگاپربت اپنی تمام تر ہیبت اور جسامت کے ساتھ آپ کے بہت قریب برفانی پہاڑ کی حقیقی تصویر بنا کھڑا ہے۔ آپ کے تین اطراف اسی سلسلے کی مزید چوٹیاں ایک دائرے کی شکل میں گھیراﺅ کئے ہوتی ہیں۔ ان چوٹیوں میںچونگڑا، رائی کوٹ، جلی پوراورگونالو شامل ہیں۔ ہر طرف چوٹیوں سے اترتے گلیشیئر ایک بڑے گلیشیئر میں ملتے عجیب سماں پیش کرتے ہیں۔

نانگا پربت کی اونچائی 8125میٹر ہے۔ پاکستان میں واقع یہ دوسری جب کہ دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے۔ اس پہاڑ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ دنیا کی مشکل ترین چوٹی ہے اور اب تک چالیس سے زائد کوہ نوردوں کی ہلاکت کا باعث بھی بن چکی ہے۔ اس خاصیت کی وجہ سے یہ’ کلر ماﺅنٹین’ یعنی’ قاتل پہاڑ’ کے نام سے مشہور ہے۔اس کے علاوہ مقامی طور پر اس پہاڑ کو ‘دیامر’ بھی کہا جاتا ہے بلکہ آس پاس کا تما م علاقہ ہی دیامر کے نام سے جانا جاتاہے۔ نانگاپربت کے نام کی وجہ یہ ہے کہ انتہائی بلند ہونے کے باوجود اس چوٹی کی دیواروں پر برف نہیں ٹھہرتی۔

فیری میڈوز میں سیاح عموماً کئی دن رکتے ہیں اور اس جگہ کے چپے چپے میں گھوم پھر کر قدرت کی شاہکار تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں مقامی لوگ یہاں ایک پولو ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی کرتے ہیں جو سیاحوں کی تفریح کو دوبالا کر دیتا ہے۔ یہاں کے جنگلات میں کئی قسم کے خوبصورت پرندے اور جانور بھی موجود ہیں جبکہ چراہ گاہوں میںچرتے ہوئے گاﺅں کے پالتو جانوربھی ایک دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی مقامی زبان ‘شنیا’ہے جو آس پاس کے تما م علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ لوگ نہایت مہمان نواز اور شائستہ ہیں، پالتو جانور، گرمیوں میں کھیتی باڑی اور سیاحت کا پیشہ ان لوگوں کے روزگار کے اہم ذرائع ہیں۔

Leave a Reply