وادی کاغان کی دلفریب ترین جھیل دودھی پت کے بغیر کاغان کا تعارف مکمل نہیں ہو سکتا۔ قدرت کے پردوں میں پوشیدہ یہ نظارہِ بے مثال حسن نظر، ہمت اور استقامت مانگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت کی اس لاجواب تخلیق کا نظارہ کرنے والوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ تین ہزار آٹھ سو اسی میٹر کی بلندی، طویل عمودی چڑھائیوں اور موسم کی بے اعتباری کے باعث اس جھیل تک جانا ایک مشکل کام ضرور ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ برف پوش پہاڑیوں اور سرسبز و شاداب ڈھلوانوں کے بیچ شفافیت اور ٹھنڈک کا یہ ذخیرہ اپنی مثال آپ ہے۔

ناران سے کوئی اڑتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بیسل کو دودھی پت جھیل کا بیس کیمپ کہا جا سکتا ہے۔ بیسل ایک سرد اور پرفضا وادی ہے جہاں قیام اور طعام کا بنیادی بندوبست موجود ہے۔ بابوسر ٹاپ جانے والی سڑک کے عین اوپر واقع ہونے اور جھیل لولوسر کی موجودگی کے باعث یہاں سیاحوں کا آنا جانابھی لگا رہتا ہے۔ لولوسرجھیل بیسل سے چند منٹ کی آسان مسافت پر سڑک کے کنارے واقع ہے۔ نیلگوں پانی والی یہ جھیل بھی وادی کاغان کی شہرت کی بڑی وجہ ہے۔ بھورے پہاڑوں کے اندر تک جاتے پانی اور پانی کی سطح پر تیرتی کشتیوں کے منظر والی یہ جھیل ایک پرراحت اور نسبتا آسان سیاحتی مقام ہے۔ اسی جھیل کو کاغان کے یخ بستہ اور مشہور دریا ئے کنہار کا نقطہ آغاز بھی کہا جاتا ہے۔

بیسل سے دودھی پت سر تک پہنچنے کے لئے تقریباً ایک مکمل دن کی ضرورت ہے۔ عموماً یہ راستہ چھ سے آٹھ گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ موسم کی خرابی، لینڈسلائیڈنگ یا بلندی کی وجہ سے تھکاوٹ کے باعث کبھی کبھار کچھ زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے لہٰذا ضروری سامان کی موجودگی لازم ہے۔ بیسل سے دریائے کنہار کو پار کر کے وادی پُربی نار اور دریائے پُربی نار تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں سے آگے مسلسل چرھائی اور چٹانی بلندیوں کو ہی راستہ کہا جاتا ہے۔ ان دشواریوں کو کسی قدر آسانی سے طے کرنے کے لئے بعض حضرات بیسل سے کرائے کے گھوڑوں کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ لگ بھگ چار سے چھ گھنٹوں کی اس جسمانی مشقت اور مستقل مزاجی کے امتحان کے بعدچڑھائی کا یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ یہاں ایک وسیع و عریض میدان ہے۔ یہ میدان مخملی گھاس اور پانی کی بیسیوں نالیوں سے پر ہے۔ اکثر مقامات پر دبیز گھاس کے اندر بہتے پانی کا اندازہ بھی نہیں ہوپاتا ۔ اس مخملی میدان میں پہنچنے کے بعد باقی کا سفر آسان ہے۔

ایک بڑی مشکل جو اس علاقے میں پیش آ سکتی ہے وہ اچانک چھا جانے اور برس پڑنے والے بادلوں کا طوفان ہے۔ اس بلندی پر یہ بارشیں جسم کی رہی سہی طاقت بھی نچوڑ ڈالتی ہیں۔ اس لئے گرم کپڑوں اور برساتیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بالکل سامنے کافی فاصلے پر یہ میدان سفید اور سبز پہاڑیوں کے ایک دائرے میں بند ہوتا نظر آتا ہے۔ یہی نصف دائرہ دودھی پت کی نشانی ہے۔ اونچے نیچے اس میدان سے گزرتے اور پانی کی نالیوں کو پار کرتے ملا کی بستی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہاں سیاحت کے موسم میں ایک آدھ عارضی کینٹین اور چند رہائشی کیمپ کرائے پر دستیاب ہو سکتے ہیں ۔ یہاں تک پہنچنے والے اکثر حضرات یہیں قیام کرتے ہیں اور اگلی صبح جھیل کی طرف روانہ ہوتے ہیں جو یہاں سے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کی آسان مسافت ہے۔
ملا کی بستی میں قیام کرنے کی روایت دودھی پت جھیل کو آلودگی سے بچانے کے لئے بھی نہایت اہم ہے۔ وہ حسین علاقے اور جھیلیں جو سیاحوں کا ہجوم لئے ہوئے ہیں انتہائی آلودگی کا شکار ہیںاور ان کا حسن تیزی سے گہنا رہا ہے۔دودھی پت سر کی انفرادیت اور تروتازگی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد کیمپنگ اور آلودگی پھیلانے سے مکمل گریز کیا جائے۔اس کے علاوہ اطراف کی انتہائی شاداب پہاڑیوں اور آنکھوں کو تراوٹ بخشتی گھاس کے میدانوں میں دریا کے کنارے کیمپنگ کے لئے ملا کی بستی ایک آئیڈیل پوائنٹ ہے۔

دودھی پت سر ایک ایسی جھیل ہے جہاں قدرت کا ہر رنگ خالص اور تروتازہ ہے۔ چوٹیوں پر موجود سفید چمکدار برف جھیل کو یخ ترین پانی فراہم کرتی ہے ۔گھاس کی گہری تہہ تا حد نگاہ پھیلی ہوئی ہے۔ دور دور تک جھیل میں اترتی ڈھلوانوں پر بھیڑ، بکریوں، گھوڑوں اور خچروں کے ریوڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر نیلا آسمان میسر آئے تو یہ منظر دنیا کے کسی بھی حسین ترین نظارے کو مات کرتا ہے۔ ایک روشن دن اور نیلے آسمان کے ساتھ اس جھیل کو دیکھنے والے خوش قسمت شاید بہت ہی کم ہوں۔ لیکن سرمئی آسمان تلے پھیلی اس جنت نظیر وادی میں اس دودھی جھیل کا منظر بھی ہر لحاظ سے اعلیٰ ترین ہے۔ یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یہاں تک آنے کی مشقتوں اور کلفتوںکا احساس اس جھیل کو ایک نظر دیکھ کرہی ختم ہو جاتا ہے

Leave a Reply